امریکہ سعودی عرب سٹریٹیجک مفادات

یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں تیل کی منڈی میں سعودی عرب ہی حقیقی استحکام لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

فروری 2021 کے بعد امریکی صدر جو بائیڈ ن (بائیں)  اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز (دائیں) کے مابین ہونے والا دوسرا رابطہ امریکہ کے اہم اتحادی سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی سوچ میں ’اہم تبدیلی‘ سمجھا جا رہا ہے (فائل تصاویر: اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کی سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو حالیہ فون کال کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے غیر رسمی جمود اور فاصلے سمٹنے لگے ہیں۔ دیرینہ اتحادی سعودی عرب سے مشکل گھڑی میں جو بائیڈن کے رابطے کو سیاسی پنڈت خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔  

صدر بائیڈن کو امریکہ کی داخلی اور خارجی سیاست میں جن چینلجوں کا سامنا ہے، انہیں ترجیحی بنیادوں پر اگر حل نہ کیا گیا تو اس سال نومبر میں حکمران جماعت ڈیموکریٹ کو سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے وسط مدتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وسط مدتی انتخاب میں یہ شکست آگے چل کر 2024 میں وائٹ ہاؤس سے ’بیدخلی‘ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔

فروری 2021 کے بعد امریکی صدر اور سعودی فرمانروا کے مابین ہونے والا دوسرا رابطہ امریکہ کے اہم اتحادی سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی سوچ میں ’اہم تبدیلی‘ سمجھا جا رہا ہے۔

فون کال کے بارے میں امریکی وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ ریڈ آؤٹ کے مطابق ’دونوں رہنماؤں نے ایران کے ایما پر سعودی عرب کے سویلین اہداف پر حوثیوں کے حملے، خطے میں رونما ہونے والی پیش رفت اور عالمی توانائی کی ضروریات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘

فون کال میں امریکی صدر نے سعودی عوام اور مملکت کے دفاع سے متعلق واشنگٹن کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

ریڈ آؤٹ کے مطابق: ’صدر بائیڈن یمن میں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سربراہی میں کی جانے والی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کے بارے میں کثیر جہتی مذاکرات سے متعلق بھی شاہ سلمان کو بریف کیا۔

یاد رہے کہ بائیڈن کے اقتدار سنبھالتے ہی ڈیموکریٹ پارٹی کے خود ساختہ ترقی پسند وِنگ نے سعودی عرب کو امریکی اسلحے کی فروخت روکنے کی اپیلیں کرنا شروع کر دی تھیں۔

مجبوراً بائیڈن نے پہلا خارجہ پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے اس اتحادی فوج کے لیے امریکی حمایت وتعاون کو ختم کرنے کا اعلان کیا، جو دراصل یمن کی آئینی حکومت کی رِٹ بحالی میں سعودی عرب کی قیادت میں سرگرم تھی۔

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ یمن میں آئینی حکومت کا تختہ الٹنے والے حوثیوں کو دہشت گرد قرار دینے کا امریکی فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا۔

مسلم دنیا کے رہنما کے طور پر سعودی عرب کے اہم علاقائی کردار، بین الاقوامی رسوخ اور توانائی کی بین الاقوامی کامیابی کے تناظر میں بائیڈن انتظامیہ کو ریاض کی اہمیت سمجھنے میں ایک برس کا عرصہ لگا۔

ریاض سے بات چیت میں واشنگٹن کے لہجے میں واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ یمن سرحد کے قریب واقع سعودی عرب کے جنوبی ریجن میں ابھا کے ہوائی اڈے پر حوثیوں کے حملے میں 12 کثیر القومی شہری زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے بعد امریکہ کے قومی سلامتی مشیر جیک سلیوان نے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن، سعودی عرب سمیت اپنے بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر ایران نواز دہشت گرد حوثی گروہ کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔

درایں اثنا امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس بھی اخبار نویسوں کو آگاہ کر چکے ہیں کہ واشنگٹن علاقائی استحکام اور عام سعودی شہریوں کی سلامتی کو فوجی جارحیت کے ذریعے خطرات سے دوچار کرنے والی حوثی قیادت اور جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دینے میں پس وپیش سے کام نہیں لے گا۔

منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے وائٹ ہاؤس نے اس مرتبہ شرق اوسط میں امریکی مفادات کے تحفظ اور ایران نواز ملیشیا کے خلاف خارجہ پالیسی کے میدان میں درست اقدام کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں صرف سعودی عرب ہی تیل کی غیر مستحکم منڈی میں زیادہ تیل پمپ کرکے استحکام لا سکتا ہے۔ سعودی عرب تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ملکوں کی نمائندہ تنظیم ’اوپیک‘ میں شامل واحد ملک ہے, جو سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرتا ہے۔

ٹیلی فونک مکالمے کی بنیاد پر جاری ہونے والے ریڈ آؤٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’واشنگٹن نے زور دے کر یہ بات کہی کہ دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ امریکہ اور سعودی عرب توانائی کی عالمی ضرورتوں میں استحکام کو یقینی بنائیں گے۔‘

اس بات سے قطع نظر کہ ایک طرف واشنگٹن، تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہا ہے مگر دوسری جانب امریکہ ایرانی حکومت کے جارحانہ رویے پر نظر بھی رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ میں چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو، واشنگٹن اسرائیل سمیت خطے میں اپنے بڑے اتحادیوں کی سلامتی اور مفادات کو زک نہیں پہنچنے دے گا۔

دور رس نتائج کی حامل ایسی محاذ آرائی سعودی عرب جیسے اہم، بنیادی اور رسوخ رکھنے والے ملک کے تعاون کے بغیر مول نہیں لی جا سکتی کیونکہ ریاض ایسی محاذ آرائی کی صورت میں علاقائی حمایت حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

امریکہ کی ڈیفنس سکیورٹی کو اپوریشن ایجنسی نے رواں برس تین فروری کو ایک بیان میں بتایا کہ دفتر خارجہ نے سعودی عرب کے لیے دو کروڑ 37 لاکھ ڈالر مالیت کے غیر ملکی فوجی سودے کی منظوری دی ہے۔

مجوزہ فوجی سودے کی فراہمی سے سعودی عرب کی مسلح افواج کو مملکت کے دفاع کے لیے سامان حرب، تربیت اور فالو آن حمایت حاصل ہوگی۔

امریکہ کی حکمران جماعت نے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ریاض اور واشنگٹن کے درمیان خلیج بڑھانے کی اپنے تئیں کوشش کی۔ اس کے باوجود سعودی عرب کی سیاسی، فوجی اور سکیورٹی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے جو بائیڈن امریکہ اور بڑے اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں۔

یہ امر مسلم ہے کہ واشنگٹن آزاد دنیا کی قیادت کا خواب مضبوط علاقائی اتحاد کا احترام کیے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا اور ایسا علاقائی اتحاد بالیقین سعودی عرب کی شرکت کے بغیر شوپیس ہی رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ