سابق امریکی خاتون اول مشیل اوباما کی دوبارہ دریافت

بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ سیاست میں آئیں گی، لیکن میگن لائڈ ڈیوس کہتی ہیں سابق خاتون اول ایک ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جو بہت زیادہ دلچسپ ہے۔

سابق خاتون اول مشیل اوباما 30 اپریل 2025 کو نیشنل ہاربر، میری لینڈ کے نیشنل ہاربر تھیٹر میں سامعین کا خیر مقدم کر رہی ہیں (شینن فنی/اے ایف پی)

پہلے گذشتہ اگست میں ڈیموکریٹک کنونشن میں انہیں ایک تقریر کرنی تھی تاکہ اپنے شوہر باراک اوباما کے لیے حاضرین کی حمایت حاصل کرسکیں - لیکن وہ تو اس شو میں چھا گئیں۔ پھر جمی کارٹر کی تدفین اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری میں ان کی غیر موجودگی کو نوٹ کیا گیا۔ اور پھر حالیہ ہفتوں میں ہائی پروفائل اور بے باک پوڈ کاسٹ انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

مشیل اوباما بہت سوچ سمجھ کر اپنی شبیہ کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہیں۔ لیکن یہ سابق خاتون اول کے طور پر کم اور اپنی شرائط پر ایک عورت کے طور پر زیادہ ہے۔

سیدھے کٹے بال، نیوٹرل مینی کیور اور وائٹ ہاؤس کے سالوں کے باحیا لباس کے دب اب چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ لمبی چوٹیوں، چمک دار نوکیلے ناخنوں اور کچھ زبردست سٹائلنگ نے لے لی ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی مستقبل کے کسی بھی خیال کو مسترد کر دیا ہے، وہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور دکھائی دیتی ہیں۔

سابق خاتون اول اب ایک نئے – اور بہت متعین کردہ – ارادے کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ وہ اپنی جمع شدہ بڑی ’سافٹ پاور‘ کا استعمال کرتے ہوئے ایک مختلف قسم کی تبدیلی لانا کرنا چاہتی ہیں۔ اور انتہائی مہارت سے وہ، یہ کھیل کھیلنے کی بجائے، قواعد کو تبدیل کر رہی ہیں - اور یہ ان کے شرائط پر حاصل طاقت ہوگی، جو کہ حقیقی اور ان کی روح کے مطابق محسوس ہوگی۔

یہ سلسلہ مارچ کے آغاز میں ان کے اپنے بھائی کریگ رابنسن کے ساتھ ایک نئے آئی ایم او پوڈ کاسٹ کے آغاز کے ساتھ شروع ہوا۔ بہن بھائی کا مشن؟ پوڈ کاسٹ کو رابطوں ناکہ تقسیم کے لیے استعمال کرنا جو اس وقت امریکہ میں پھیلی ہوئی ہے۔

مشیل نے کہا: ’ہمیں درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے - چاہے وہ خاندان ہو، ایمان ہو، یا ہمارے ذاتی تعلقات - لیکن وقت نکال کر ان مسائل کے بارے میں بات کرنا امید فراہم کر سکتا ہے۔‘

رابنسن نے، جن کو ان کے باسکٹ بال کوچنگ کی اعلیٰ کیریئر نے رہنمائی (مینٹورشپ) کی فن میں مہارت دی ہے، بھی بہن بھائی کی امید کا ذکر کیا کہ ان کا پوڈ کاسٹ ’نئے خیالات، نئے نقطہ نظر کو جنم دے اور وہ تعلق بنائے جس کی ہمیں ابھی ضرورت ہے۔‘

سالوں سے افواہیں گرم تھیں کہ سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن کے نقش قدم پر چل کر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کر سکتی ہیں۔ وہ آخر کار ایک باصلاحیت مقرر ہیں اور اوباما کے صدر بننے کے بعد سے عوام کے ساتھ ایک اہم تعلق قائم کر چکی ہیں۔ انسٹاگرام پر پانچ کروڑ ستر لاکھ فالوئرز کے ساتھ، مشیل کا سوشل میڈیا اثر و رسوخ اب ان کے شوہر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کی 2018 کی یادداشت ’بیکنگ‘ ایک عالمی بیسٹ سیلر تھی۔ بہت سہ خواہش مند سیاست دان ایسی بنیاد کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جس پر وہ سیاسی کیرئیر کی تعمیر کرسکیں۔

لیکن مشیل نے پہلے بھی ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ کیا اور پہلی آئی ایم او قسط کے ایک ہفتے کے اندر بھی ایسا ہی کیا۔

انہوں نے ناٹ گونا لائی‘ پوڈ کاسٹ پر کیلی کلسی سے کہا: ’میں بہت خوش تھی جب ہم وائٹ ہاؤس سے نکلے۔ جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں کبھی انتخابات میں حصہ لوں گی، تو جواب نہیں ہے۔‘

جلد ہی وہ دوبارہ انٹرویو دی رہی تھیں - اس بار صوفیا بش کے پوڈ کاسٹ میں، جہاں انہوں نے اس افواہ کو مسترد کیا کہ ان کی شادی میں مسائل ہیں کیونکہ وہ اوباما کے ساتھ حالیہ اعلیٰ پروفائل سیاسی مواقعوں پر نہیں گئی تھیں اور یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ اب کسی دوہرے کردار کا آدھا حصہ نہیں نبھائیں گی۔

انہوں نے کہا: ’یہ وہ چیز ہے جس سے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بحثیت خواتین مشکل پیش آتی ہے، جیسے کہ لوگوں کو مایوس کرنا۔ میں اتنا کہوں گی کہ اس سال لوگوں نے، وہ یہ بھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ میں اپنے لیے ایک انتخاب کر رہی ہوں، کہ انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ میرے شوہر اور میں طلاق لے رہے ہیں؟ یہ ایک بالغ عورت نہیں ہو سکتی جو خود فیصلے کر رہی ہے، ٹھیک ہے؟

’لیکن یہی تو معاشرہ ہمارے ساتھ کرتا ہے۔ ہم واقعی، آخرکار یہ سوچنے لگتے ہیں، میں کیا کر رہی ہوں؟ میں یہ کس کے لیے کر رہی ہوں؟ اور اگر یہ اس قسم کے دقیانوسی تصورات میں فٹ نہیں بیٹھتا جو لوگ سوچتے ہیں کہ ہمیں کرنا چاہیے، تو پھر یہ کچھ منفی اور خوفناک کے طور پر لیبل کیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ہفتے مشیل نے دوبارہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب وہ جے شیٹی کے ’آن پرپز‘ پوڈ کاسٹ میں آئیں اور انہوں نے اپنی بیٹیوں، مالیہ (26) اور ساشا (23) کے بالغ ہونے کے بعد ’زندگی کے ایک اور مرحلے‘ سے گزرنے کے لیے تھراپی میں جانے کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے کہا: ’میں ایک خالی گھونسلہ ہوں۔ اب، پہلی بار، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، میں جو بھی انتخاب کر رہی ہوں وہ مکمل طور پر میرا ہے۔ میرے پاس یہ بہانہ نہیں ہے کہ، میرے بچوں کو یہ چاہیے، یا میرے شوہر کو یہ چاہیے، یا ملک کو یہ چاہیے۔ تو، میں اس اگلے مرحلے کے بارے میں کیسے سوچوں؟‘

بہت سالوں تک مشیل نے سیاسی بیویوں کے روایتی راستے پر چلتے ہوئے اپنے ایک ماں جو بچوں کی ماں اور چیمپئن کے کردار کی طرح شناخت کروائی - اپنی بیٹیوں کے لیے ’ہیڈ موم ان چیف‘ کے طور پر جانے جانے والی، وہ وائٹ ہاؤس میں اپنے وقت کے دوران کئی ابتدائی سالوں کے منصوبوں میں بھی شامل رہی، جن میں بچوں کی موٹاپے سے نمٹنے اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے پروگرام شامل تھے۔

لیکن ’بیکمنگ‘ نے یقیناً فلسفیانہ اور فکری خیالات کو اس کی ذاتی کہانی میں بُنا، اور ان کی دوسری کتاب ’دی لائٹ وی کیری: اوورکمینگ ان انسرٹن ٹائمز‘ کی اشاعت 2022 نے انہیں مزید اپنی مدد آپ اور موٹیویشن کے فلسفے کی جانب مزید جھکا دیا۔

لیکن یہ پیغام مسلسل نہیں تھا۔ ’دی لائٹ پوڈ کاسٹ‘ کی 10 اقساط جاری ہونے کے بعد، چھ ماہ کا وقفہ 2024 کے اوائل میں آیا جس کے بعد مزید دو اقساط سامنے آئیں، اور پھر مشیل دوبارہ خاموش ہوگئیں۔

دوسری طرف، ’ہائیئر گراؤنڈ‘ کے مواد نے، وہ پروڈکشن کمپنی جو انہوں نے اوباما کے ساتھ مل کر وائٹ ہاؤس کے بعد قائم کی، ایک بہت کامیاب راستے سے ہمکنار ہوا۔ لیکن تبلیغ کرنے کی بجائے، یہ جوڑا اپنے اقدار کو ظاہر کرنے کے ہوشیاری سے مشکل موضوعات کے بارے میں تفریحی اور دلچسپ طریقے تلاش کر رہا تھا۔ نیٹ فلکس کے ساتھ پہلے دیکھنے کا معاہدہ کرنے کے بعد، سماجی نظم کی خرابی سے لے کر بوڑھے لوگوں کے دکھائی دینے کی بڑھتی ہوئی ضرورت تک ہر طرح کے موضوعات، خاص طور پر خواتین کے لیے یہ منصوبے احاطہ کرتے ہیں۔

قیامت پر مبنی تھرلر ’لیو دی ورلڈ بی ہائینڈ‘ کو جس میں جولیا رابٹس نے کام کیا، ریلیز ہونے کے تین ہفتوں کے اندر بارہ کروڑ سے زیادہ ویوز ملے۔ ’دی لیٹر ڈیٹرز‘ نے ریئلٹی ٹی وی پر مبنی رومانی شوز کو نوجوانوں سے ہٹا کر عمر رسیدہ شرکا پر حساس اور تفریحی طریقے سے توجہ مرکوز کی۔ مشیل اوباما واضح طور پر چاہتی ہیں کہ وہ سخت سیاسی پیغام رسانی کی متنازع دنیا کو پیچھے چھوڑ کر زیادہ لطیف - اور خوش گوار - طریقے سے موضوعات کا جائزہ لیں۔

وہ واضح طور پر اپنی آواز پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے گذشتہ ماہ آئی ایم او کے لیے تاراجی پی ہینسن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’تھراپی سے گزرنا مجھے اس حقیقت پر غور کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ شاید آخرکار میں ٹھیک ہوں۔‘

خود پر شک کا اعتراف کرتے ہوئے، خود قبولیت کو اپناتے ہوئے اور اپنی شادی میں مشکلات کے بارے میں تازہ دم سچائی سے بات کرتے ہوئے - مشیل نے ایک بار اعتراف کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ابتدائی سالوں میں اپنے شوہر کو ’برداشت نہیں کر سکیں‘ کیونکہ ذہنی اور عملی بوجھ بہت غیر مساوی محسوس ہوتا تھا - وہ اپنی سچائی اور ایمان داری کے لیے طویل عرصے سے جانی جاتی ہیں۔

لیکن آئی ایم او کا آغاز اور ان کے حالیہ انٹرویوز نے انہیں خود کے بارے میں حقیقی حیثیت اور جذباتی خامی کا ایک پیغام بار بار دیتے ہوئے دکھایا ہے۔ اپنی زندگی میں ایک نئے دور کا احساس بیان کرتے ہوئے، مشیل اوباما نے ایک ’مالی لحاظ سے غیر مستحکم‘ آدمی سے شادی کرنے کے بارے میں بات کی - اوباما اور وہ جب پہلی بار ملے تو وہ جوان وکلا تھے - سے لے کر گذشتہ سال اپنی والدہ کی موت کے نتیجے میں گہری جذباتی تبدیلی تک۔

تو کیا اس سب کے پیچھے کوئی منصوبہ ہے؟

شاید۔ اوپرا ونفری ایک اچھی دوست ہیں جنہوں نے مشیل کی 50ویں سالگرہ کی تقریب اپنی رہائش گاہ پر منعقد کی، اور یہ ممکن ہے کہ سابق خاتون اول اسی قسم کی نرم ثقافتی طاقت کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں تاکہ ایک زیادہ پرامید دنیا تخلیق دے سکیں۔

جینیفر ہاللوے کہتی ہیں، جو ایک برانڈنگ ماہر اور مصنف ہیں جنہوں نے ایپل اور مائیکروسافٹ جیسے کلائنٹس کے ساتھ کام کیا ہے کہ ’انہوں نے (مشیل) ایک ناقابل یقین برانڈ بنایا ہے۔ اور اس کی طاقت یہ ہے کہ اس نے یہ سب کچھ قدرتی طور پر کیا ہے، اپنے آپ کو مستقل اور سچا رکھ کر۔ اور یہ دلچسپ ہے کہ وہ اب ایک ایسے طریقے سے زیادہ کھل کر بولتی ہیں جو شاید وہ پہلے نہیں کر سکتی تھیں۔

’ان کا ایک بہت گہرا اثر ہے۔ وہ لوگوں کو امید دیتی ہیں۔ اور میں سوچتی ہوں کہ یہی ان کا برانڈ ہے - یہ اپنے ممکنات کو حاصل کرنے کے بارے میں ہے۔ ان کی کلیدی صلاحیت یہ ہے کہ وہ دوسروں کو متاثر کرتی ہیں اپنے آپ کے ساتھ سچی رہ کر، اور چیلنجز کے بارے میں ایمان دار ہو کر۔ ان کی شناخت ممکن ہے۔ اور یہ غیر معمولی طور پر طاقتور ہے۔‘

چاہے مشیل کے ذہن میں اپنے حالیہ اقدامات پر مبنی کوئی منصوبہ ہے تاکہ وہ اپنی شرائط پر اپنی جگہ بنا سکیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لیکن ماضی میں انہوں نے ’اس قسم کی آتش فشانی وضاحت‘ کے بارے میں لکھا ہے جو اس وقت آتی ہے جب آپ اپنے وجود کے مکمل مرکز سے بولتے ہیں۔

یہ بھی واضح ہے کہ سیاست میں کئی سال گزرانے کے دوران انہوں نے کئی سبق سیکھے ہیں۔

اور جیسا کہ ایک اور ڈیموکریٹ فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بار کہا: ’سیاست میں، کچھ بھی اتفاقی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو آپ شرط لگا سکتے ہیں کہ اس کا اسی طرح منصوبہ بنایا گیا تھا۔‘ اور مشیل اوباما کے الفاظ میں: ’جب وہ نیچے جاتے ہیں، تو ہم اوپر چلے جاتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل