عالمی یوم سائیکل: کیا سڑکیں صرف گاڑیوں کے لیے ہیں؟

جب بچہ چار یا پانچ سال کا ہوتا ہے تو والدین بڑے شوق سے سائیکل خرید کر دیتے ہیں لیکن اس کے بعد سی ڈی اے کی طرح بھول جاتے ہیں کہ اپنی اور بچوں کی سائیکل میں دلچسپی کیسے برقرار رکھی جائے۔

پاکستان میں سائیکل چلانے والے کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات میں مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کہیں موڑ پر آپ کو گاڑی والے تیزی سے موڑتے ہوئے ایسا کٹ دیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے کہ کیسے ڈرائیور نے سیدھے جانے والے کو دیکھتے ہوئے بھی ان دیکھا کر دیا۔

اس پر ظلم یہ کہ حکومتی سرپرستی بھی نہیں۔ اس سے مراد مفت لیپ ٹاپس یا موٹر سائیکلیں بانٹنے جیسی سرپرستی نہیں لیکن سڑک پر سائیکل والے غریب انسان کا حق تسلیم کروانا بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سائیکل کے لیے مخصوص لین تو دور کی بات، سمجھا جاتا ہے کہ اسے سڑک پر آنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

لندن میں جب مقامی انتظامیہ نے سائیکل کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا تو مصروف ترین سڑکیں کاٹ کر ان کے لیے جگہ بنائی گئی۔ یہاں اگر ایسا پہلے تو کوئی سوچ نہیں رہا لیکن بھولے سے سوچ آ بھی جائے تو امیر گاڑی والے اسے شاید کھا جائیں۔ اس کے مقابلے میں سائیکلوں کو محبوب سمجھے جانے والے دیس ڈنمارک میں 12 ہزار سائیکل لین اور ٹریکس ہیں۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چند سال قبل سی ڈی اے انتظامیہ نے سائیکل لین بنانے کا اعلان کیا اور پوش ایف سکس یا سیون کی چند اچھی سڑکوں کے سائیڈ لینز پر سائیکل لین لکھ دیا اور سمجھا اب سائیکلیں ہیں، سائیکلیں چلیں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، پھر وہ اس منصوبے کو بھول گئی یا وہ افسر چلا گیا۔

سی ڈی اے کے ایک ملازم محمد مسکین کو صبح سائیکل پر اپنے ساتھی کے ساتھ جاتے دیکھا تو بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ موٹر سائیکل خرید نہیں سکتے لہذا سائیکل پر ہی آتے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پانچ سال قبل سائیکل پندرہ سو روپے میں خریدی تھی۔

گذشتہ برس اسلام آباد میں ایکل بڑی شاہراہ مارگلہ ایونیو یا ایران ایونیو کا افتتاح ہوا۔ چھ لین کی اس سڑک پر لگے سائن بورڈ محض گاڑی والے امیروں کے لیے اور ٹرک بس کے لیے معلومات تو فراہم کرتے ہیں لیکن سائیکل یا موٹر سائیکل کے ہدایات کے لیے بھی کچھ نہیں۔

اگر سائیکل اور موٹر سائیکل کو اس روڈ پر آنے کی اجازت موٹر وے کی طرح نہیں تو اس کے بارے میں بھی یہ سڑک اور اسے بنانے والے خاموش ہیں۔

جس کا جدھر سے منہ اٹھتا ہے چل پڑتا ہے۔ کسی بڑے خدانخواستہ حادثے کے بعد ہی کچھ کیا جائے گا۔

اسلام آباد اور ملک کے چند دیگر شہروں میں بعض شاہراہوں پر موٹر سائیکلوں کے لیے تو اوور ہیڈ پل تعمیر کیے گئے ہیں لیکن سائیکل کو مد نظر رکھ کر نہیں۔

حالانکہ پاکستان میں ہر دو گاڑیوں کے مقابلے میں آٹھ موٹر سائیکل فروخت ہو رہی ہیں۔ سائیکلوں کی تعداد معلوم نہیں لیکن دو چار لاکھ تو سال میں بک جاتی ہوں گی۔

حکومت کو سائیکل بنانے والی کمپنیوں کو جدید ٹیکنالوجی اور معیارات کو ترغیب دینی چاہیے۔ سہراب والی بھی چاہییں لیکن کوئٹہ اور پشاور میں لائی گئی استعمال شدہ مغربی سائیکلوں کے بڑھتے کاروبار کو بھی دیکھنا چاہیے۔ کیوں نہ یہ پاکستان میں بنیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

والدین جب بچہ چار یا پانچ سال کا ہوتا ہے تو سائیکل بڑے شوق سے خرید کر دیتے ہیں لیکن اس کے بعد سی ڈی اے کی طرح بھول جاتے ہیں کہ اپنی اور بچوں کی سائیکل میں دلچسپی کیسے برقرار رکھی جائے۔ وہ چھوٹی سائیکلیں بعد میں تول کے حساب سے بیچ دی جاتی ہیں اور ہر کوئی بڑی سے بڑی گاڑی خریدنے کی دوڑ میں لگا جاتا ہے۔

پاکستان میں شہری حکام اور نجی اداروں کو پہل کرنی ہو گی۔ حکام کو عوام کو ترغیب دینے کے علاوہ انفراسٹرکچر میں بھی سائیکل کو نہیں بھولنا چاہیے۔ چاہیے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں نیا تعمیر ہونے والا پارکنگ پلازہ ہو یا میلوڈی کو خوبصورت بنانے کا آزبائیجانی تحفہ سائیکل پارکنگ جیسی سہولیات ضروری ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں سائیکل کے دیوانوں نے کرٹکل ماس نامی گروپس بنا رکھے ہیں جو ہفتہ وار رائڈز کا انتظام کرتے ہیں جس سے نجی سطح پر کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ خواتین بھی اب اس جانب زیادہ آ رہی ہیں۔

لیکن وسائل کی کمی باصلاحیت کھلاڑیوں کے راہ میں رکاوٹ بھی بن رہی ہے۔ پاکستانی سائیکلنگ چیمپیئن مالی مسائل کے باعث عالمی مقابلوں سے محروم کی یہ کہانی دل جلانے کے لیے کافی ہے۔

پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن بھی ایونٹس کا انعقاد کرتی ہیں لیکن اکثر فنڈز کی کمی کا رونا بھی روتی رہتی ہے۔ اسے اپنی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سرکاری مدد کی ضرورت ہے۔

سائیکل کا دن کیوں منایا جاتا ہے؟

ایک پولش سائنس دان نے جو امریکہ میں مقیم تھے اس دن کے لیے مہم کا آغاز کیا تھا۔ ان کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے اپریل 2018 میں جنرل اسمبلی کی قرار داد کے ذریعے یہ دن منانے کا فیصلہ کیا۔ سائیکلنگ کو اب صحت مند طرز زندگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اعتدال پسند باقاعدہ جسمانی سرگرمی جیسے کہ چہل قدمی، سائیکل چلانا یا کوئی بھی کھیل صحت کے لیے اہم فوائد ہیں۔ اب تو پاکستان میں بھی جہاں شوگر کا مرض خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے ڈاکٹر بھی سائیکل کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کے لیے محفوظ بنیادی ڈھانچہ بھی صحت کے شعبے میں مساوات کے حصول کا ایک راستہ ہے۔ غریب ترین شہریوں کو، جو اکثر گاڑیوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے ہیں، پیدل چلنا اور سائیکل چلانا جہاں نقل و حمل کی سستی سہولت فراہم کرتا ہے جبکہ دوسری جانب یہ دل کی بیماری، فالج، کچھ کینسر، ذیابیطس اور یہاں تک کہ موت کے خطرے کو کم کرسکتا ہے۔

15 مارچ 2022 کو جنرل اسمبلی نے پائیدار ترقی کے لیے عوامی نقل و حمل کے نظام میں مین سٹریم سائیکلنگ کے انضمام سے متعلق قرارداد منظور کی۔ اس نے زور دیا کہ سائیکل پائیدار نقل و حمل کا ایک ذریعہ ہے اور آب و ہوا پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔

لاہور جیسے سموگ سے متاثرہ شہروں میں تو اسے لازمی قرار دے دیا جانا چاہیے جبکہ میری جیسی موٹی توند والے پولیس اور دیگر سرکاری اہلکاروں کو بھی سائیکل پر بٹھا دیا جانا چاہیے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ