کراچی: قربانی کے گوشت کے لیے پتوں کی ٹوکریوں کے ’آخری چند‘ دکان دار

محمد نواز بلوچ کے مطابق، ٹوکری اور چٹائی کے لیے بلوچستان کے آواران کے پہاڑوں سے مخصوص پودوں کے پتے لائے جاتے ہیں، جو سبز ہوتے ہیں، جنہیں بعد میں کاریگر مخصوص مہارت سے ٹوکری بناتے ہیں۔

محمد نواز بلوچ گذشتہ 25 سال سے پتوں کی ٹوکریاں، چٹائیاں، سبزی اور گوشت اٹھانے والے پتوں کے بنے تھیلے فروخت کر رہے ہیں۔

75 سالہ نواز کی دکان کراچی کے لیاری ٹاؤن کی تاریخی لی مارکیٹ کے اندر شاہی مارکیٹ میں واقع ہے۔

نواز کے مطابق ماضی میں اس مارکیٹ میں پتوں کی بنی ٹوکری، چٹائی اور دیگر اشیا کے متعدد دکانیں تھیں، مگر اب ان کی مانگ ختم ہونے کے باعث یہ دکانیں بڑی تعداد میں بند ہو گئی ہیں۔

’میں اب آخری چند دکان داروں میں ایک ہوں جو تاحال ان اشیا کی دکان چلا رہے ہیں۔ اس کاروبار میں بچت نہ ہونے کے باعث نوجوان اس کاروبار کی بجائے تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ’ہماری دکان پر مختلف سائز اور معیار کی پتوں کی بنی ٹوکریاں ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ ٹوکریاں چار، پانچ کلو گوشت کے لیے جب کہ بڑی سائز کی ٹوکری 15 سے 20 کلو گوشت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

’اس کے علاوہ پتوں کی بنی چٹائیاں بھی فروخت کرتے ہیں۔ عید الاضحی کے دوران قربانی کے جانوروں کا گوشت کاٹنے کے لیے پتوں کی بنی ٹوکری بہترین ہوتی ہے۔

’اس پر بیٹھ کر گوشت کاٹنے سے گندگی نہیں ہوتی اور اگر گوشت چٹائی پر گر بھی جائے تو خراب نہیں ہوتا۔‘

نواز کے مطابق ٹوکری اور چٹائی کے لیے بلوچستان کے آواران کے پہاڑوں سے مخصوص پودوں کے پتے لائے جاتے ہیں، جو سبز ہوتے ہیں، جنہیں بعد میں کاریگر مخصوص مہارت سے ٹوکری بناتے ہیں۔

’چٹائی کے لیے خاص پتے ٹھٹھہ ضلع کے مختلف علاقوں سے لائے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ٹوکری کی قیمت 50 یا 60 روپے سے 140 روپے تک ہے۔

’مگر لوگ جو لاکھوں کا قربانی کا جانور لاتے ہیں وہ اتنی چھوٹی سی رقم سے ٹوکری خریدنے کی بجائے رقم بچانے کے لیے قربانی کا گوشت پلاسٹک کی تھیلی میں لاتے ہیں۔

’میرے پاس کارخانہ نہیں۔ میں ہول سیل والوں سے لے کر تھوڑی سی کمیشن رکھ کر بیچتا ہوں، مگر اب بہت کم خریدار آتے ہیں۔‘

ایک اور دکان دار عبدالوحید بلوچ 40 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔

عبدالوحید بلوچ نے کہا: ’قربانی کے گوشت کو کاٹنے، حصہ بانٹنے یا لوگوں میں تقسیم کے لیے پتوں کی بنی ٹوکری ماحول دوست ہے، جس میں گوشت کئی گھنٹے رکھنے سے خراب نہیں ہوتا کیوں کہ یہ پتوں کی بنی ہوئی ہے جس میں گوشت کو ہوا بھی لگتی رہتی ہے۔‘

عبدالوحید بلوچ کے مطابق اب اس مارکیٹ میں آخری چند دکان دار بچے ہیں اور نوجوان اب اس کاروبار میں نہیں آنا چاہتے۔

’اس طرح چند سالوں بعد پتوں کی ٹوکری کا کام بند ہو جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا ’نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ 40 سال تک کاروبار کرنے سے آپ کو کیا ملا، جو ہم اس کاروبار میں آئیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان