پاکستان نے انڈیا کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ دنوں ملکوں کے درمیان جاری اہم تنازعات کے حل کے لیے مداخلت کریں۔
یہ بات مختلف اہم دارالحکومتوں میں اسلام آباد کا مؤقف پیش کرنے والے اعلیٰ سطحی وفد کے ارکان نے اتوار کو لندن پہنچنے کے بعد کہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں نو رکنی پاکستانی وفد نیویارک کا دورہ مکمل کرنے کے بعد برطانیہ پہنچا ہے۔
برطانیہ آمد کے بعد خرم دستگیر نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے گفتگو میں کہا ’ہمیں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھی کہ امریکی سمجھتے ہیں چونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی میں ثالثی کرا دی ہے، اس لیے اب مزید مداخلت کی ضرورت نہیں۔
’ہمارا اصل مقصد یہی تھا کہ انہیں باور کرایا جائے کہ مزید مداخلت کی ضرورت ہے۔ سفارتی وفد نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔‘
گذشتہ ماہ انڈیا کے ساتھ ہونے والی عسکری محاذ آرائی کے بعد مختلف ملکوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
قبل ازیں پاکستانی وفد نے اقوام متحدہ، اس کے رکن ممالک اور امریکی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں جن میں انڈیا کے ساتھ جاری کشیدگی اور خطے میں امن کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف پیش کیا گیا۔
پاکستانی وفد کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا اور نئی دہلی کے ساتھ انڈیا-پاکستان کے تمام تنازعات، بشمول سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں کے دوران ہونے والی شدید ترین لڑائی نے بڑی ایٹمی جنگ کے خدشات پیدا کر دیے تھے۔
چار روز تک دونوں ممالک کے درمیان میزائلوں، جنگی طیاروں اور ڈرون حملوں کا تبادلہ ہوتا رہا، جس کے بعد 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا۔
خرم دستگیر کے مطابق ’ہم نے امریکی حکام کو واضح کیا کہ پاکستان کا پانی دراصل ہماری تہذیب، 24 کروڑ عوام کی زندگی اور ان کی ثقافت کا سوال ہے۔‘
’ہم نے امریکہ کو باور کرایا کہ انڈیا کے ساتھ ان کی معاشی شراکت داری سے وہ ترقی ممکن نہیں جو اس صورت میں ہو سکتی ہے جب انڈیا اور پاکستان مستقل جنگ کی حالت میں نہ رہیں۔‘
انڈیا نے اپریل میں اعلان کیا کہ وہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر رہا ہے۔
انڈیا نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے میں ملوث ہے۔ تاہم پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کر رکھی ہے۔
سابق پاکستانی سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ کافی مثبت بات چیت ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بنیادی طور پر پیغام دیا کہ انڈیا نے جارحیت کی۔ پاکستان امن پسند ملک ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ انڈیا، پاکستان کے تمام مسائل پُرامن طریقے سے حل ہوں۔‘
سینیٹر شیری رحمان نے، جو مذاکرات کا حصہ تھیں، کہا کہ ہماری بات چیت کا بنیادی مقصد خطے میں امن کا قیام ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمارا مقصد امن، مذاکرات کو فروغ دینا، پانی کے معاہدے کی حیثیت بحال کرانا تھا جسے انڈیا نے یکطرفہ طور پر معطل کر دیا، اور کشمیر پر بات چیت شروع کرنا تھا۔‘
برطانیہ کے دورے میں پاکستانی وفد اہم برطانوی حکام سے ملاقاتیں کرے گا جن میں گذشتہ ماہ کی کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف اور خطے پر اس کے ممکنہ اثرات کو واضح کیا جائے گا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی وہ اعلیٰ ترین مغربی عہدے دار ہیں جنہوں نے گذشتہ ماہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کا دورہ کیا تھا۔
اس موقعے پر لیمی نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ حالات مستحکم رہیں، تاہم ہم ان کے نازک ہونے کو بھی تسلیم کرتے ہیں، خاص طور پر دہشت گردی کے تناظر میں، ایسی دہشت گردی جس کا مقصد انڈیا کو غیر مستحکم کرنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ آئندہ کے اقدامات پر گفتگو کی۔ تاہم انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر اپنے انڈین پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘