کراچی کے کینٹونمنٹ ریلوے سٹیشن اور کلفٹن کو جوڑنے والے پل ’للی برج‘ کے نیچے کئی برسوں سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والی نادرا کو اس سال عید الاضحیٰ پر امید تھی کہ مالی امداد کے ساتھ اتنا گوشت ضرور مل جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کئی روز تک گوشت پکا سکیں گی، مگر اس بار انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
نادرا کا کہنا ہے ’پچھلے سالوں میں عید الاضحیٰ کے موقعے پر بکرے کا گوشت اتنی وافر مقدار میں ملتا تھا کہ ہم دن میں تین بار گوشت کھاتے تھے۔
’مگر اس سال میں صبح سے مختلف محلوں میں بھٹکتی رہی جہاں قربانی ہو رہی تھی، لیکن کہیں سے گوشت نہیں ملا۔‘
بالآخر دوپہر کو انہیں تھوڑی سی مقدار میں بکرے اور گائے کا ملا جلا گوشت ملا، جس سے صرف ایک وقت کا سالن بن سکا۔
نادرا کا تعلق ضلع بے نظیر آباد کی تحصیل سکرنڈ کے ایک نواحی گاؤں سے ہے، جہاں ان کا خاندان کھیتوں پر مزدوری کرتا تھا۔
شوہر کی جانب سے طلاق کے بعد وہ بے گھر ہو گئیں اور پناہ کی تلاش میں کراچی آ گئیں۔ گذشتہ 17 سال سے وہ للی برج کے نیچے رہ رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بارش کے دنوں میں وہ پل کے نیچے جا کر بارش رکنے کا انتظار کرتی ہیں، پھر واپس اسی جگہ آ جاتی ہیں جہاں وہ سوتی ہیں۔
نادرا نے بتایا ’جب میں پہلی بار کراچی آئی تھی تو عید الاضحیٰ پر اتنا گوشت ملتا تھا کہ ہم اسے سکھا کر چھ سے آٹھ مہینے تک کھاتے تھے۔
’چند سال پہلے تک بھی پانچ، چھ دن کا گوشت مل جاتا تھا، مگر اب لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ مانگنے والے ہو، ہم کیوں دیں؟ لیکن ہم تو غریب ہیں، گوشت ہمارا بھی حق ہے۔‘
نادرا کے مطابق اس بار عید پر مالی امداد بھی بہت کم ملی۔ ’صبح کئی گھنٹے عیدگاہ کے باہر بیٹھنے کے بعد صرف 900 روپے ملے، جن میں سے 200 روپے تو سالن کے لیے پیاز، ٹماٹر اور مرچ خریدنے میں خرچ ہو گئے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انہیں کوئی ہنر نہیں آتا، مہنگائی بڑھ گئی ہے اور اب مخیر حضرات بھی مدد کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
’مالی مدد تو دور کی بات، اب تو لوگ قربانی کا گوشت بھی دینے سے کتراتے ہیں۔‘