لاس اینجلس میں آئی سی ای کی کارروائیوں کے نتیجے میں رواں ہفتے 118 تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کے دو ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔
اتوار کی صبح گریٹر لاس اینجلس میں تین مقامات پر تقریبا 300 فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا کیونکہ دن بھر پرتشدد جھڑپیں جاری رہیں۔
اتوار کی شام جب اندھیرا چھایا تو جلی ہوئی گاڑیوں سے نکلنے والے شعلے اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر تحریروں نے ایل اے میں ایک اور ہنگامہ خیز دن کے شواہد روشن کیے۔
تشدد پیر کی صبح تک جاری رہا، جب ریاستی حکام نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور صدر کو ’غیر ضروری‘ کارروائی کے لیے جو بقول ان کے ’افراتفری‘ اور ’تماشا‘ شروع کرنے کا سبب بنا تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس کے جواب میں ٹرمپ نے 'فوجیوں کو طلب‘ کرنے کا اعلان کیا۔
احتجاج شروع کیسے ہوا؟
امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ حکام نے گذشتہ جمعے کو متعدد مقامات پر تلاشی لینا شروع کی۔
ہوم لینڈ سکیورٹی انویسٹی گیشنز اور امریکی اٹارنی آفس کے نمائندوں کے مطابق فیشن ڈسٹرکٹ میں کپڑوں کے ایک گودام کے باہر ایک تلاشی لی گئی جب ایک جج کو ممکنہ شک ہوا کہ ایک آجر اپنے کچھ کارکنوں کے لیے فرضی دستاویزات استعمال کر رہا تھا۔
ایک ہجوم نے آئی سی ای ایجنٹوں کو گرفتاریوں کے بعد بھاگنے سے روکنے کی کوشش کی۔
ایک اور احتجاج اس وقت شروع ہوا جب مظاہرین نے دیکھا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو مبینہ طور پر عمارت کے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔
اس کے بعد پیراماؤنٹ میں اس وقت مظاہرے شروع ہو گئے جب بظاہر وفاقی قانون نافذ کرنے والے افسران علاقے میں ایک اور امیگریشن آپریشن کر رہے تھے۔ یہ احتجاج قریبی شہر کومپٹن میں بھی پھیل گیا۔ ایل اے کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے بتایا کہ مظاہرے میں چار سو افراد شریک تھے۔ ان گرفتاریوں کے نتیجے میں مظاہرین وفاقی حراستی مرکز کے باہر جمع ہو گئے اور 'انہیں رہا کرو، انہیں رہنے دو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔'
ٹرمپ نیشنل گارڈ کیوں تعینات کر رہے ہیں؟
ہفتے کو ٹرمپ نے ایل اے میں نیشنل گارڈ کے کم از کم دو ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ ’اگر کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوکم اور لاس اینجلس کے میئر کیرن باس اپنا کام نہیں کر سکتے جو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ نہیں کر سکتے تو وفاقی حکومت آگے آئے گی اور فسادات اور لٹیروں کے مسئلے کو حل کرے گی!! جس طرح اسے حل کیا جانا چاہیے۔‘
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے بھی سوشل میڈیا پر لکھا کہ 'وفاقی حکومت کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کو سنبھالنے اور دو ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ اقدام جان بوجھ کر اشتعال انگیز ہے اور اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تعیناتی غلط اقدام ہے اور اس سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔‘
1965 کے بعد سے ریاستی نیشنل گارڈ کو کسی صدر کی طرف سے وفاقی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔
دوسری جانب وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیتھ کے حکم کے بعد پانچ سو میرینز کو تعینات کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
اس کے بعد حالات کیسے آگے بڑھے ہیں؟
نیشنل گارڈ کے پہلے دستے اتوار کو لاس اینجلس کے علاقوں میں پہنچے، جن میں پیراماؤنٹ اور مرکزی علاقہ بھی شامل ہے۔ امریکی شمالی کمان کے مطابق گریٹر لاس اینجلس کے علاقے میں تین مقامات پر تین سو فوجیوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔
آن لائن شیئر کی جانے والی فوٹیج میں مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے اور پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
ایک اور ویڈیو میں مظاہرین کو افسران پر آتشی مواد اور دیگر میزائل پھینکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ہے اور متعدد مقامات پر ’ایف *** آئی سی ای‘ پر مبنی گرافیٹی کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کی صبح تک ایل اے پی ڈی پہلے ہی 29 گرفتاریاں کر چکی تھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دن بھر شہر میں 'مزید کئی مظاہروں' سے نمٹنے کی تیاری کر رکھی تھی۔ پولیس کے ایک ذرائع نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ شہری حکام ’تارکین وطن کے حقوق کے حامی ہیں‘ اور موجودہ صورت حال کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ’کوئی جیت نہیں‘ قرار دیا۔
دریں اثنا لاس اینجلس کاؤنٹی شیرف ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ہفتے کو پیراماؤنٹ شہر میں صرف دو گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ شہر کی ڈیموکریٹک نمائندہ نینیٹ بارگان نے سی این این کے سٹیٹ آف دی یونین کو بتایا کہ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ’آئی سی ای کے نفاذ کے 30 دنوں‘ کے لیے تیار رہیں۔
اتوار کی شام تک ایل اے پی ڈی نے کہا کہ شہر میں لوٹ مار کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
نیوسم اور باس کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد صدر نے زمینی سطح پر مظاہرین کے خلاف اپنی تنقید جاری رکھی ہے۔
اتوار کو انہوں نے کہا کہ ’ایل اے میں حالات بہت برے لگ رہے ہیں! فوجیوں کو لانا چاہیے!!‘ اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ ’چہروں پر ماسک چڑھائے ان لوگوں کو گرفتار کرو اب!‘
سان فرانسیکو میں تقریبا 60 مظاہرین کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ایک گروپ نے ’حملے سے لے کر وحشیانہ توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچانے تک کے جرائم کا ارتکاب کرنا شروع کر دیا۔‘
مشرقی ساحل پر لوئر مین ہٹن میں ہونے والے مظاہروں کے بعد نیو یارک میں بھی پولیس نے آئی سی ای مخالف بیس مظاہرین کے خلاف کارروائی کی۔ اے بی سی سیون نے خبر دی ہے کہ اتوار کو درجنوں مظاہرین فیڈرل پلازہ پر گھنٹوں تک احتجاج کرتے رہے اور آئی سی ای کی حراستوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
اس سے قبل اتوار کو ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈین بونگینو نے نیویارک اور لاس اینجلس میں گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے مظاہرین کو خبردار کیا تھا کہ وہ دانش مندی سے فیصلے کریں۔
ردعمل کیسا رہا؟
نیوسم اور باس دونوں نے صدر کی جانب سے فوجیوں کی تعیناتی کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنا جاری رکھا ہے اور اسے 'غیر ضروری' اور انتظامیہ کی جانب سے 'افراتفری' پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ای میل کے ذریعے جاری ہونے والے ایک بیان میں گورنر نے کہا کہ ٹرمپ اور وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیتھ 'تماشا' اور تشدد چاہتے ہیں۔
’ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ کوئی نامکمل ضرورت باقی نہیں ہے۔ صدر جذبات اور ردعمل کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ طاقت کے اس اشتعال انگیز مظاہرے اور پیٹ ہیگ سیتھ کی جانب سے امریکی سرزمین پر امریکی میرینز کو تعینات کرنے کی مضحکہ خیز دھمکی کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیں گے تاکہ کشیدگی میں اضافہ ہو اور تشدد کو ہوا ملے۔
’وہ تماشا چاہتے ہیں۔ وہ تشدد چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی طور پر ان کے لیے اچھا ہے۔‘
نیوسم نے مزید کہا ’ایک مہذب ملک اس طرح کا برتاؤ نہیں کرتا۔ یہ مکمل طور پر غیر منظم طرز عمل ہے۔ انہیں وہ تماشا نہ دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ تشدد کا استعمال کبھی نہ کریں۔ پرامن طریقے سے اور بڑی تعداد میں بولیں۔‘
ٹی ایل اے سے اتوار کو بات کرتے ہوئے باس نے کہا کہ ٹرمپ کا فیصلہ غیر ضروری اور ’صرف سیاسی‘ تھا۔ ’میں بہت مایوس ہوں۔ میرے لیے یہ بالکل غیر ضروری ہے اور میرے خیال میں یہ (ٹرمپ) انتظامیہ کا محض دکھاوا ہے۔
ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز اور نیو جرسی کے سینیٹر کوری بکر سمیت دیگر ڈیموکریٹس نے نیوسم اور باس کی حمایت کی جبکہ بوکر نے صدر کے اقدامات کو 'منافقانہ' قرار دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ اور جی او پی کے ارکان بشمول ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل، سپیکر مائیک جانسن اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر کرسٹ نوم نے صدر کی تائید کی۔
میکسیکو کا پرچم احتجاج کی علامت کیوں بن گیا ہے؟
لاس اینجلس میں ایک نقاب پوش مظاہرہ کرنے والے کی ایک ڈرامائی تصویر جس میں ایک نقاب پوش مظاہرین کو جلتی ہوئی کار کے گرد سائیکل چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے تیزی سے آئی سی ای مخالف فسادات کی علامت بن گئی ہے۔
ہسپانوی اکثریتی شہر میں نقاب پوش مظاہرین کی ڈرون فوٹیج ایکس پر شیئر کی گئی تھی جو وائرل ہوگئی تھی۔
بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے ٹرمپ کو پروپیگنڈا کارروائی کرنے کا موقع دیا کیونکہ وہ لاس اینجلس سے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ میکسیکو کے پرچم لہرانے والے مظاہرین کی تصویر ان کی مزاحمت کو کمزور کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹک حامی ارمند ڈومالوسکی نے ویڈیو شیئر کی اور ایکس پر دعویٰ کیا کہ مظاہرین کو ’ریپبلکن ہونے چاہیے۔‘
آسٹریلوی سیاسی مبصر ڈریو پاولو نے اس کے جواب میں لکھا: ’یہ ٹرمپ اور سٹیون ملر کے لئے بہترین پروپیگنڈا فوٹیج کی طرح ہے. لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘
© The Independent