چین پر اویغور خواتین کے زبردستی اسقاط حمل اور جنسی تشدد کا الزام

انسانی حقوق کے ماہرین اور رضاکاروں کا کہنا ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں مسلم خواتین کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے اور نسل کشی کے لیے ایسے حربے عام ہیں۔

زیر حراست خواتین سے بدسلوکی کے علاوہ بیجنگ نے سنکیانگ سے مسلم ثقافت کو مٹانے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں: انسانی حقوق کے کارکن(اے ایف پی)

چینی حکام سے بھاگی ہوئی مسلمان خواتین کو سرحد پار قازقستان میں سر چھپانے کی جگہ مل چکی ہے۔

قازقستان ان خواتین کا آبائی وطن ہے لیکن وہ اُن مظالم کی کہانیوں سے نہیں بھاگ سکتیں جو وہ اپنے ساتھ لائی ہیں۔  کچھ کا کہنا ہے انہیں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں زبردستی اسقاط حمل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کچھ نے بتایا کہ دوران حراست ان کی مرضی کے خلاف ان کے جسم میں تولیدی عمل روکنے کے لیے آلات نصب کیے گئے۔

ایک خاتون کے مطابق اسے ریپ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی اور خواتین نے بتایا وہ جنسی ہراسانی کا شکار رہیں، جس میں نہاتے ہوئے ان کی عکس بندی کرنا اور نازک حصوں پر پسی سرخ مرچوں کا چھڑکے جانا شامل ہے۔

 یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب چین میں مسلمان اقلیت کے خلاف سالوں سے کریک ڈاؤن جاری ہے جن میں صرف ایغور ہی نہیں بلکہ قازق اور دوسرے نسلی مسلمان گروہ بھی شامل ہیں۔

ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مقامی گروہوں کے مطابق ایسے واقعات عام ہیں اور خواتین کے خلاف خصوصی طورپر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے ان کی تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

دسمبر 2018 میں قازق نسل کی 38 سالہ گلزیرا مگدین کو قازقستان سے واپسی پر سنکیانگ میں حراست میں لے لیا گیا تھا کیونکہ ان کے فون میں وٹس ایپ پایا گیا تھا۔

انہیں اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا جس کے بعد ڈاکٹرز کے معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ دس ہفتے کی حاملہ ہیں۔

چینی حکام نے مگدین کو بتایا کہ انہیں اپنے چوتھے بچے کو جنم دینے کی اجازت نہیں۔ اس کے اگلے ماہ مگدین کا کہنا تھا، ’میرے ہونے والے بچے کو مجھ سے الگ کیا گیا اور مجھے بے ہوش بھی نہیں کیا گیا۔‘ وہ اس حوالے سے ابھی تک صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔

قازقستان کے شہر الماتے کے نواح میں رہائش پذیر مگدین کا کہنا ہے کہ ’اس عمل میں دو انسانوں کی جان گئی، ایک میں اور ایک میرا بچہ۔‘

انہیں اسی سال جولائی میں قازقستان کی شہریت ملی ہے جس کے بعد مگدین نے کہا کہ ان میں بولنے کی ہمت آئی ہے۔ انہوں نے چین سے ہرجانے یا معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کئی لوگ اب بھی بولنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ایک قازق خاتون، جن کی ایک قریبی رشتے دار کو چین میں دو بار 2016 اور 2017 میں اسقاط حمل کے عمل سے گزرنا پڑا، وہ اب بھی سنکیانگ میں مقیم ہیں۔

 ان کی وکیل ایمن عمروا، جو قازقستان میں انسانی حقوق کی وکیل اور امریکی محکمہ خارجہ کی اعزاز یافتہ ہیں، نے بتایا ’ان کی موکل قازقستان میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ اپنا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتیں۔‘

عمروا کے مطابق خواتین کی یہ کہانیاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کی نشاندہی کرتی ہیں۔’خواتین کا جنسی استحصال اور ان کی تولیدی صلاحیتوں کو ختم کرنا مسلمانوں کے خلاف چین کا ہتھیار بن چکا ہے۔‘

امریکی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 2017 سے چین میں 10 سے30لاکھ مسلمانوں کو ’تربیتی کیمپوں‘ میں رکھا جا رہا ہے، جن میں اکثریت اویغور مسلمانوں کی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے دو افراد سے اس حوالے سے بات کی جن میں ایک آسٹریلوی شہری الماس نظام الدین بھی شامل ہیں۔ جن کو شبہ ہے کہ ان کی بیوی جو کہ نسلی اویغور ہیں سنکیانگ میں نظر بند ہیں اور 2017 میں انہیں اسقاط حمل پر مجبور کیا گیا تھا۔

چین میں ایک بچہ پالیسی کے تحت اسقاط حمل اور مانع حمل ادویات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اکثر ایسا حکام کی جانب سے زبردستی بھی کیا جاتا ہے تاکہ کم آبادی رکھنے کے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔

کچھ اقلیتوں کو اس سلسلے میں استثنی دیا گیا تھا کہ وہ ہان چینیوں کے مقابلے میں زیادہ بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ چین میں صنفی برابری پر کام کرنے کی ماہر لیٹا ہانگ فنچر نے کہا ہے کہ’تین سال پہلے اس پالیسی کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ گروہوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نسلی اقلیتوں کی آبادی روکنے کے لیے کیے جانے والے سخت اقدامات کافی واضع ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر حراست خواتین سے بدسلوکی کے علاوہ بیجنگ نے سنکیانگ سے مسلم ثقافت کو مٹانے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں جن میں نسلی گروہوں سے باہر شادیوں اور سرکاری حکام کے مسلمان خاندانوں کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ایسا چینی صدر شی جنگ پنگ حکومت کی جانب سے یکسانیت کی فضا قائم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

واشنگٹن میں مقیم اویغور افراد کے لیے مہم چلانے والے ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر روشن عباس نے بتایا اقوام متحدہ کنونشن کے مطابق ایسا کرنا نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔’ چینی ثقافت کے ہدف کے طور پر خواتین کو نشانا بنایا جا رہا ہے کیونکہ انہیں کمزور سمجھا جاتا ہے۔‘

عباس کے مطابق گذشتہ سال سنکیانگ میں ان کی بہن کو اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں۔

کچھ الزامات اس سے بھی پرانے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 2009 میں ارمچی میں ہونے والے فسادات سخت حفاظی اقدامات کا باعث بنے ہیں۔ اسلامی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ رقیہ پرہت کو چار سال کے لیے مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔

رقیہ نے بتایاانہیں کئی بار چینی ہان اہلکاروں نے ریپ کا نشانہ بنایا اور وہ اس دوران دو بار حاملہ ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رقیہ کے مطابق 35 سال سے کم عمر ہر مرد اور عورت کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔وہ اب ترکی میں مقیم ہیں اور یہ بات انہوں نے مترجم کے ذریعے کہی۔

انہوں نے کہا دوران حراست ان کے دونوں حمل زبردستی ساقط کیے گئے۔ ان کی عمر اس وقت 30 سال ہے۔

کئی سابقہ زیر حراست خواتین کو شک ہے کہ جب رات گئے خواتین قیدیوں کو اپنے سیلز سے نکالا جاتا تھا تو صبح واپس آنے سے پہلے حفاظتی عملہ ان کا ریپ کرتا تھا۔

40 سالہ گلزیرہ ایولخان کے مطابق ’وہ آتے تھے اور جس خاتون کو چاہتے تھے اس کے سر پر کپڑا ڈال دیتے تھے۔‘ قازقستان کے گاؤں اکشی میں مقیم یہ خاتون بھی 18 مہینے ان کیمپوں میں گزار چکی ہیں۔

مئی میں ایک سابق گارڈ کی جانب سے لکھا جانے والے ایک کھلا خط بھی سنکیانگ کے کیمپوں کے حوالے سے ان خواتین کے دعوؤں کی تصدیق کرتا ہے۔ سابق گارڈ کا بیان جو انسانی حقوق کے رضاکار نے شیئر کیا تھا اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔

ایک نسلی قازق شہری بیرک کا کہنا ہے کہ چینی افسر کیمروں پر خواتین کی نگرانی کرتے ہیں اور پھر انہیں چن کر وہاں سے باہر نکالتے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے رابطہ کرنے پر ایک اور خاتون نے کیمپوں میں جنسی استحصال کی تصدیق کی۔ انہیں نے سیراگل سیوتبے نامی خاتون کے الزامات کو دہرایا۔

سیراگل ایک قازق خاتون ہیں جو کیمپوں میں ان واقعات کو افشاں کرنے پر چین کو مطلوب ہیں۔ قازقستان کی مدد سے وہ جولائی میں سویڈن منتقل ہو چکی ہیں۔

کئی خواتین کے مطابق انہیں ایک ساتھ کیمروں کی نگرانی میں نہانے اور ٹوائلٹ استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

گلزیرہ ایولخان کے مطابق خواتین گارڈز ان کے بال کھینچنے کے لیے چیونگم استعمال کرتی تھیں۔ شادی شدہ خواتین کو ملاقات کے بعد نامعلوم گولیاں کھانے کو دی جاتی تھیں۔

چھوٹی شیشیوں میں پانی کے ساتھ مرچیں بھر کے خواتین کو نہانے سے پہلے دی جاتی تھیں۔ کپڑے اتارنے کے بعد خواتین گارڈز انہیں کہتی تھیں کہ یہ اپنے نازک اعضا پر مل لیں۔  ایک خاتون کے مطابق’ یہ آگ کی طرح جلتا تھا۔‘

جب چینی حکومت سے ان الزامات پر ردعمل دینے کا کہا گیا تو چینی وزارت خارجہ نے واشنگٹن پوسٹ کو گذشتہ ماہ اخبار میں چھپنے والے ایک تربیتی اور تعلیمی منصوبے کی جانب متوجہ کیا جس میں دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ’حفاظتی تربیت‘ کے اصول شامل کیے گئے ہیں۔

وزارت خارجہ کا کہنا تھا، ’آپ ایسا سوال نہ کرتے اگر آپ نے دھیان سے یہ وائٹ پیپر پڑھا ہوتا۔‘

جولائی میں چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ کے دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے اویغور مسلمانوں سے سلوک کو ’صدی کا بدترین دھبہ‘ قرار دیا تھا لیکن اس کے علاوہ اس صورتحال پر کوئی سخت ردعمل نہیں آیا۔ مسلمان اکثریتی ممالک بھی اس معاملے پر چین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

قازقستان کی حکومت بھی ان میں شامل ہے جو اپنے طاقتور مشرقی ہمسائے سے منسوب ان اقدامات کی مذمت نہیں کر سکتی۔

ملک کا استحکام اور وسائل صدر شی کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے فوائد اٹھا رہے ہیں اور قازقستان کے شہروں میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم اس حوالے سے سرگرم رضاکاروں کے مطابق قازقستان کی چین کے حوالے سے خاموشی کی حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ سنکیانگ سےایسی خبروں کا طوفان آرہا ہے۔ سنکیانگ میں 15 لاکھ نسلی قازق بستے ہیں۔

ماضی میں زیر حراست رہنے والے افراد سنہری زمین پر بکھرے قازق دیہاتوں میں اب اس حوالے سے بات کرنا شروع ہو چکے ہیں یہاں تک وہ لوگ بھی جن کے رشتہ دار اب بھی چین میں مقیم ہیں۔

32 سالہ رکھیما سینبے کا کہنا ہے، ’میں کافی عرصے تک اس پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اگر میں نہیں بولوں گی تو کون بولے گا؟‘

وہ تالدیکورگان میں اپنی دوست کے گھر کے قریب کھڑی تھیں۔ وہ ابھی تک چینی شہری ہیں لیکن وہ قازقستان کو اپنا گھر مانتی ہیں۔ انہیں گذشتہ سال حراستی کیمپ سے رہائی ملی تھی۔

چار بچوں کی ماں رکھیما کو 2017 میں سنکیانگ میں گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ ان کے فون میں وٹس ایپ موجود تھا۔ ایک چینی خاتون ڈاکٹر نے زبردستی ان کے جسم میں مانع حمل آلہ داخل کیا تھا۔

رکھیما کے مطابق، ’میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ کیمپ جانے والی ہر خاتون کے لیے یہ ضروری ہے۔‘

گلزان ایک قازق رضاکار ہیں۔ وہ صرف اپنا پہلا نام ہی استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سات خواتین اسی قسم کے سلوک کے بارے میں انہیں بتا چکی ہیں۔ ’یہ اب تک کی بات ہے جب مجھے صرف چاہ ماہ ہوئے ہیں۔ خود سوچیں اور کتنی ایسی خواتین ہوں گی۔‘


واشنگٹن پوسٹ

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا