سوڈان کے علاقے دارفور کے شہر الفاشر میں فوج کے آخری گڑھ پر نیم فوجی دستوں کے قبضے کے دوران ہونے والے مظالم کو بےنقاب کرنے میں سیٹلائٹ تصاویر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ییل یونیورسٹی کی ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب (ایچ آر ایل) کے نیتھنیئل ریمَنڈ نے کہا کہ فضائی تصاویر ہی واحد ذریعہ رہ گئی ہیں جن سے شمالی دارفور کے دارالحکومت الفاشر میں زمینی صورتِ حال کی نگرانی ممکن ہے۔
خانہ جنگی کی وجہ سے اس علاقے میں صحافیوں کا جانا خطرناک ہے، اس لیے روایتی ذرائع سے خبروں کی ترسیل اور تصدیق مشکل ہو گئی ہے۔
26 اکتوبر کو سوڈان کی متوازی فوج ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے ڈیڑھ برس کے محاصرے کے بعد الفاشر شہر پر قبضے پر دعویٰ کیا تھا۔
زوم کی ہوئی سیٹلائٹ تصاویر میں گھر گھر جا کر قتل، اجتماعی قبروں، سرخی مائل دھبوں اور مٹی کے پشتوں کے ساتھ پڑی لاشوں کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ نتائج عینی شاہدین کے بیانات سے مطابقت رکھتے ہیں۔
28 اکتوبر کو ایچ آر ایل نے الفاشر کے زچہ و بچہ ہسپتال کی فوٹیج شائع کی جس میں ’سفید اشیا کے ڈھیر‘ نظر آئے جو پہلے موجود نہیں تھے اور جن کی لمبائی 1.1 سے 1.9 میٹر (3.6 تا 6.2 فٹ) تھی، یعنی تقریباً اتنے جتنے کسی انسان کے لیٹے ہوئے جسم یا مڑھے ہوئے اعضا کے ہوتے ہیں۔
لیب نے بتایا کہ قریب ہی زمین پر ’سرخی مائل تبدیلیاں‘ دکھائی دیں جو ممکنہ طور پر خون ہو سکتا ہے۔
سوڈان میں خانہ جنگی کیوں ہو رہی ہے؟
سوڈان اس وقت ایک خوفناک خانہ جنگی سے گزر رہا ہے۔ پچھلے چند دن کے دوران وہاں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں، کئی لاکھ بےگھر ہو چکے ہیں اور کئی علاقوں میں قحط کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں سوڈان کے عام شہریوں کے خلاف بہیمانہ کارروائیوں کی ویڈیوز عام ہوئی ہیں جن میں لوگوں کو زندہ جلایا اور دفنایا جا رہا ہے۔
یہ خانہ جنگی دو فوجی دھڑوں کے درمیان ہو رہی ہے۔ ایک طرف سرکاری فوج ایس اے ایف ہے، جس کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان ہیں۔ دوسری طرف پیرا ملٹری ملیشیا آر ایس ایف ہے جس کی قیادت محمد حمدان دقلو کر رہے ہیں جو ’حمیدتی‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی فوج میں جنجوید کہلانے والے جنگجو شامل ہیں۔
یہ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں 22 سال پیچھے جانا پڑے گا۔ دارفور سوڈان کا نسبتاً پسماندہ علاقہ ہے۔ وہاں کے لوگوں کو ایک عرصے سے شکایت تھی کہ مرکزی حکومت انہیں نظرانداز کر رہی ہے۔ 2003 میں مقامی قبائل نے حکومت اور سرکاری فوج کے خلاف بغاوت شروع کر دی جو کئی برس تک جاری رہی۔ اس دوران دسیوں ہزار لوگ مارے گئے اور آبادی کے بڑے حصے کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2013 میں سرکاری فوج کے مقابلے میں ایک متوازی فوج آر ایس ایف کی شکل میں سامنے آئی۔ اب یہ ایک باقاعدہ پیرا ملٹری فورس کی شکل میں اختیار کر چکی ہے جن کے پاس سونے کی کانوں اور دوسرے ذرائع سے فنڈنگ کے وسائل موجود ہیں۔ ان کے پاس ڈرون، آرٹلری اور بکتر بند گاڑیاں ہیں اور ایک تخمینے کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عملی طور پر سوڈان میں دو متوازی فوجیں آمنے سامنے ہیں جن کے اپنے اپنے کمانڈ سٹرکچر ہیں۔
2021 میں ان دونوں فوجوں نے مل کر سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود حکمران بن بیٹھے مگر جنرل برہان اور حمیدتی میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے جو 2023 میں ایک اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئے۔
آر ایس ایف نے دارالحکومت خرطوم اور دارفور کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا، جب کہ ایس اے ایف نے ان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس کے بعد سے اب تک اقوامِ متحدہ کے مطابق40 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
سوڈان کی صورتِ حال کو جو چیز مزید پیچیدہ بناتی ہے وہ اس کا قبائلی پس منظر ہے۔ دارفور میں متعدد نسلی اور قبائلی گروہ موجود ہیں جن کے درمیان پرانی دشمنیاں اور مخالفتیں ہیں جو موجودہ تنازعے میں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔