کالاباغ کا ’بیچ 82‘: دوستوں نے بڑھاپے کو شکست دے کر لڑکپن واپس بلا لیا

1982 میں میٹرک کرنے والے ہم جماعتوں نے وٹس ایپ کے ذریعے مل کر لڑکپن کی یادیں تازہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

میانوالی کے علاقے کالاباغ میں دریائے سندھ کے کنارے واقع گیسٹ ہاؤس میں ایک خوبصورت شام کا منظر ہے، جہاں سفید داڑھیوں والے دوست خوش گپیوں اور ہنسنے مسکرانے میں مشغول ہیں۔

یہ کالاباغ کا بیچ 82 گروپ ہے، جنہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول کالاباغ سے اکٹھے تعلیم حاصل کی، ایک ہی جماعت میں اکٹھے بینچوں پر بیٹھے اور 1982 میں اکٹھے میٹرک کرنے کے بعد کچھ نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ کچھ کاروبار سے منسلک ہو گئے اور کچھ حصول معاش کی خاطر ملک کے مختلف حصوں میں جا بسے۔

کچھ دادا اور نانا بن گئے، زندگی کی دوڑ اور مصروفیات میں پتہ ہی نہ چلا اور 43 سال گزر گئے۔

ان میں سے ایک شخص طارق محمود، جو پی ٹی سی ایل میں ملازمت کرتے تھے اور راولپنڈی میں مقیم تھے، کچھ عرصہ قبل ان کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ بچپن کے دوستوں اور 1982 میں کالاباغ سے میٹرک کرنے والے، اکٹھے تعلیم حاصل کرنے والے اور سکول کے گراؤنڈ میں کھیلنے اور اسمبلی کے وقت قومی ترانہ پڑھنے والے دوستوں کو ایک بار پھر سے اکٹھا کیا جائے اور بچپن کا سنہرا اور رنگین دور واپس لانے کی کوشش کی جائے۔

انہوں نے Batch 82-Kalabagh کے نام سے وٹس ایپ گروپ بنایا، مقامی اور ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہم جماعتوں کے موبائل نمبر حاصل کیے اور گروپ ترتیب دے دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد انہوں نے تمام دوستوں کو اکٹھا ہونے کی دعوت دی۔ یہ سب کالاباغ میں پرفضا مقام پر اکٹھے ہوئے اور بچپن کی سکول کی یادیں تازہ کیں، لڑکپن کی شرارتوں کو یاد کیا، کچھ گھنٹے اکٹھے گزارے اور پھر اپنی اپنی منزل کو چل دیے۔

یہ سلسلہ ہر سال جاری رہا۔ کوئی دوست راولپنڈی سے آتا تو کوئی لاہور سے، کوئی میانوالی سے تو کوئی سرگودھا سے۔ اسی طرح ہر سال دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

نومبر کی سرد شام، دریائے سندھ کے کنارے سکول کی یادیں تازہ کرتے ہوئے طارق محمود نے بتایا کہ ان کوشش ہوتی ہے کہ وہ چند ماہ بعد ایسا ایونٹ منعقد کریں جس میں سب ہم جماعت مل بیٹھیں۔

بیچ 82 کے منتظم طارق محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب ایسا وقت چل رہا ہے کہ کسی کے پاس وقت نہیں ہے اور سب زندگی کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ ’میرا مقصد یہ ہے کہ ہم کم از کم سال میں ایک بار اکٹھے ہوں، مل بیٹھیں، اکٹھے کھانا کھائیں، گپیں لگائیں اور بچپن کی یادیں تازہ کریں۔ اس سے ایک تو سب کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، دوسرا لڑکپن کی باتیں اور یادیں تازہ کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں زیادہ تر مقامی دوست ہی شرکت کرتے ہیں، جو ضلعے کے مختلف علاقوں سے آتے ہیں، دیگر شہروں سے بھی دوست شریک ہوتے ہیں۔

’ہم سب مل کر خوش گپیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرتے ہیں، خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں اور ہمارا رابطہ بحال رہتا ہے۔ ہم سب لڑکپن اور طالب علمی کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر سے بچے بن جاتے ہیں۔‘

بقول طارق: ’ہر انسان کو اس کا ماضی اور بچپن کا وقت بہت اچھا لگتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہ وقت لوٹ آئے۔ ہم سب وہ وقت تو نہیں لوٹا سکتے مگر اس طرح کی محفل سجا کر گزرے حسین وقت کو کم از کم تازہ ضرور کر لیتے ہیں اور یہ ڈپریشن سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی