ٹالسٹائی کو نوبیل انعام کیوں نہ مل سکا؟

عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کو نوبیل انعام نہیں ملا، جس کے بعد اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ادب کے نوبیل انعام کی کچھ وقعت نہیں رہی۔

نوبیل انعام سے ٹالسٹائی کے قد میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا تھا، خود نوبیل انعام کی عزت بڑھ جاتی (پبلک ڈومین)

ادب میں نوبیل انعام کو دنیا بھر میں سب سے مؤقر انعام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے معاملات کی طرح نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کے باہمی تفرقوں، سیاست بازی، غلط بخشیوں اور نسل پرستانہ رجحانات نے اسے متنازع بنا دیا ہے۔

یقینا اس کمیٹی کی کچھ مجبوریاں بھی ہوں گی۔ دنیا بھر میں جو کچھ جتنی زبانوں میں لکھا جا رہا ہے وہ ترجمہ ہو کر اس کمیٹی کے ارکان کے سامنے نہیں پہنچتا اور نہ پہنچ سکتا ہے۔ بعض بہت بلند پایہ شاعروں اور فکشن نگاروں کی خود اپنے ملک میں قدر نہیں ہوتی اور ان کے مرنے کے سالہا سال بعد قارئین اور ناقدین کو ان کی وقعت کا اندازہ ہونا شروع ہوتا ہے۔

اس کے باوجود کمیٹی کے بہت سے فیصلوں پر صاد نہیں کیا جا سکتا۔ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے لکھنے والوں کے بارے میں اس کی کم علمی یا لاعلمی بجا لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ یورپی ادب میں بھی اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی ادب میں نوبیل انعام دینے کا آغاز 1901 سے ہوا۔ اگر آپ چند حضرات کے نام پڑھیں تو حیران ہوں گے کہ یہ لوگ کون ہیں۔ آج ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا اور نہ انھیں پڑھا جاتا ہے۔ کمیٹی کی من مانیاں روزِ اوّل سے جاری ہیں۔ انھیں چھوٹے چھوٹے ادیب اور شاعر تو نظر آ گئے لیکن لیو ٹالسٹائی جیسا دیو نظر نہ آ سکا اور پہلا انعام سلی پرودوم نامی ایک ایسے فرانسیسی شاعر کو ملا جسے فرانس میں بھی کوئی نہیں جانتا۔

آخر ٹالسٹائی نے خود ہی ایک خط لکھا جس میں کہا کہ مجھے آئندہ کے لیے معاف رکھا جائے۔

لیکن خیر، ٹالسٹائی کو نوبیل انعام کی کیا حاجت؟ اسے انعام مل بھی جاتا تو اس کے قد میں بال برابر کا اضافہ نہ ہوتا، الٹا خود نوبیل انعام کی عزت بڑھ جاتی اور آج کے نوبیل انعام یافتہ فخر سے کہتے ہیں کہ ہمیں وہ انعام ملا ہے جو ٹالسٹائی کو ملا تھا۔ 

اس کے علاوہ ہنرک ابسن جیسے بلند پایہ ڈراما نگار کو یہ انعام ملنا چاہیے تھا کہ اس نے یورپی ڈرامے میں انقلاب پیدا کر دیا۔ اس کا تعلق بھی ناروے سے تھا اور اس سے کمیٹی کے ارکان یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ انھوں نے اسے پڑھا نہیں۔

اسی طرح ایک اور بڑے ڈرامہ نگار سٹرنڈبرگ کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ سٹرنڈبرگ کا تعلق سویڈن سے تھا اور بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ سٹرنڈ برگ سے بڑا ڈراما نگار سویڈن نے پیدا نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ کمیٹی کے ارکان اپنی زبان کا ادب بھی نہ پڑھتے ہوں۔ دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ان ادیبوں اور شاعروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے جن کو انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا تو حیرت ہوتی ہے بلکہ بعض کے نام اس فہرست میں شامل دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً برگساں، برٹرنڈرسل اور ونسٹن چرچل کا ادب سے کیا تعلق ہے؟ انھیں کس خوشی میں انعام کے قابل سمجھ لیا گیا؟

اب اس فہرست کی طرف آتے ہیں جنھیں انعام کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ انگریزی اور امریکی ادب میں جیمز جوئس، ورجینیا وولف، ہنری جیمز، جوزف کونریڈ، ڈی ایچ لارنس، ایزرا پاؤنڈ اور ٹامس ہارڈی کے نام قابل ذکر ہیں۔ پسند کسے کیا گیا؟ رڈیارڈ کپلنگ، گارلز وردی، گولڈنگ، پرل ایس بک کو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کبھی کبھی غلطی سے صحیح ادیب بھی چن لیے گئے ہیں۔ ولیم فاکنر اور ہیمنگوے، لیکن جو نام پہلے گنائے جا چکے ہیں کیا وہ زیادہ مستحق نہ تھے؟

کمیٹی نے ہسپانوی ناول نگار پیو باروخا کو انعام نہیں دیا جس کے بارے میں ہیمنگوے نے کہا کہ نوبیل انعام مجھے نہیں باروخا کو ملنا چاہیے تھا۔

دوسری عالم جنگ کے بعد سرد جنگ میں نوبیل کمیٹی پوری طرح امریکہ اور اس کے حلیفوں کی شریک تھی۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو ضرور نوازا جائے جو کسی نہ کسی طرح اشتراکی نظام کے خلاف تھے۔ پاسترناک اور سولژے نیتسن کو اسی لیے نوبیل انعام دیا گیا۔ پاسترناک نے حکومتی دباؤ کی بنا پر انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

بعد میں سوویت حکومت کی برہمی دیکھ کر شولوخوف کو بھی انعام دیا گیا۔ چند سال پہلے ایک چینی ادیب کو محض اس لیے انعام دیا گیا کہ وہ موجودہ چینی حکومت کے خلاف تھا۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکہ میں کمیٹی نے بورخیس، اونے تی، والیے خو، آرگید اس کو انعام نہیں دیا۔ یورپ میں مچادو، لورکا، کوافی اور رتسوس جیسے بڑے شاعروں کو نظر انداز کر دیا۔

عرب دنیا میں نجیب محفوظ کو انعام اس لیے دیا گیا کہ مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اس طرح کی وفاداری کا کچھ انعام تو ملنا ہی تھا۔

ایشیا میں دو جاپانیوں اور ایک چینی کو چھوڑ کر صرف ٹیگور کو انعام ملا۔ اقبال کو اس قابل نہ سمجھا گیا۔ بہت سے بڑے بڑے انگریز ادیب اور نقاد شور مچاتے رہے کہ آر کے نارائن پوری طرح انعام کا مستحق ہے۔ یہ شور کمیٹی کے کانوں تک نہیں پہنچا۔

نام تو اور بھی بہت سے ہیں کمیٹی کی بے شعوری ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی بہت ہے۔ کمیٹی نے اس اردو مثل پر پوری طرح عمل کیا ہے:

اندھا بانٹے ریوڑیاں... اپنوں کو جھولی بھر بھر

زیادہ پڑھی جانے والی ادب