میں لڑکھڑایا تو کیا کروگے؟

ن لیگ شہیدوں کی پارٹی نہیں جو سالانہ عرس کر کے اپنی پارٹی کی قربانیاں گنوائے، نہ ہی اس کے پاس جیالے ہیں جو اپنے قائد کے نام پر جاں سے گزر جائیں۔ ن لیگ کو مولانا کی طرح تابع دار کارکن بھی نہیں ملے جو مدرسے کی اسمبلی کی طرح ایک آواز پر ڈنڈا بردار ہو جائیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف 11 اکتوبر 2019 کو احتساب عدالت سماعت کے موقع پر کیپٹن صفدر ان کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی)

پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد جمع ہوئی جس میں مریم نواز کی پیرول پر رہائی کا مدعا اٹھایا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔

پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اب قراردادوں کے ذریعے اپنے قائد کی زندگی پر خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ لگتا تو کچھ یوں ہے کہ یہ کچھ برا ہو جانے کا انتظار میں بیٹھے ہیں۔

اس واقعے کو بھی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے جب لاہور ائیرپورٹ پر گرفتاری دینے کے لیے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی آمد ہوئی۔ یہ بہادری اور جی داری کا نظارہ تھا۔

بتوں کو آج سروں پر سجا کے نکلے لوگ

گئے وہ دن کہ چھپاتے تھے آستینوں میں

 احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر اس وقت کتنا برمحل لگتا تھا، لگتا تھا کہ بس آج  انقلاب آنے کو ہے۔ میڈیا نے لاہور میں ایک بھائی کا اپنے بڑے بھائی کے لیے فقیدالمثال استقبال، کارکنوں کا احتجاج اور تاریخی گرفتاری کو لائیو دکھانے کی پوری تیاری کر رکھی تھی لیکن پھر دنیا نے لائیو دیکھ بھی لیا کہ لاہور میں اپنے قائد کا استقبال کرنے والا ن لیگی جلوس دراصل شاندار کا شین بھی نہیں تھا۔

نواز شریف اور مریم نواز کو راتوں رات بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ’باہروں باہر‘ اسلام آباد اور پھر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ یہ لاہور کی سڑکوں پر خالی خولی کی فوں فاں کر کے گھروں کو چلے گئے اور باپ بیٹی کی گرفتاری کی ویڈیوز ٹی وی پر دیکھتے رہے۔ نواز شریف اور مریم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ ادھر انہیں سانپ سونگھ گیا، ہم سمجھے ن لیگی اب رات سے دن کر دیں گے مگر سڑکوں سے نہ اٹھیں گے، مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔

باپ بیٹی اور داماد کی گرفتاری کے بعد ن لیگ جنہیں مادر جمہوریت کہتی ہے، بیگم کلثوم نواز کا لندن کے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ شوہر اپنی بیوی کے آخری لمحات میں ساتھ تھا نہ بیٹی۔ ہم نے سوچا کہ شاید اب ن لیگ ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ اپنے بکھرے ٹکڑے سمیٹ لے گی۔ ہمارا گمان ایک بار پھر غلط ثابت ہوا۔

یوں لگا جیسے پارٹی کے بہت سے لوگ کلثوم نواز کی رخصت کے ساتھ اپنی پارٹی کی رسم قل بھی کر رہے ہیں۔ جس خاموشی سے بیگم کلثوم نواز دنیا سے گئیں، اسی خاموشی سے ن لیگ کو بھی دیمک اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے۔

 فکری اختلاف تو بہت مثبت چیز ہے، ہونا چاہیے۔ ن لیگ میں بھی بات اگر فکری اختلاف تک ہوتی تو اچھا تھا مگر جو جمہوری پارٹی پچھلے دو ماہ سے ایک لانگ مارچ جیسے جمہوری عمل سے گھبرا رہی ہو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں وہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی۔ ان کے مشاورتی اجلاس ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ مولانا فضل الرحمن تو آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، مولانا نہ تو نیب کے گرداب میں پھنسے ہیں نہ مولانا کی پارٹی داو پر لگی ہے مگر پھر بھی یہ مولانا ہی ہیں جو ہر کچھ دن بعد اونگھتی ہوئی ن لیگ کو ٹہوکا دے دیتے ہیں۔

نواز شریف کو بارہا دل کی تکلیف بتائی گئی۔ کہا گیا کہ ان کے دل کی حالت اچھی نہیں، انہیں پرہیزی کھانا اور علاج بروقت چاہیے، سپریم کورٹ میں بھی صحت کی خرابی کی بنیاد پر ضمانت کا  کیس چلا، یہاں تک کہ سرکاری ڈاکٹرز نے بھی مانا کہ میاں نواز شریف کا دل پوری طرح کام نہیں کر رہا، قائد پر کیا کچھ نہیں گزر رہی مگر ن لیگی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہ ٹوئٹر پر ’باؤ جی وی لو یو‘ کا ٹرینڈ چلا کر مطمئن ہیں۔

میری بات شاید بہت سوں کو تلخ لگے مگر پہلے شک تھا اب یقین ہوچلا ہے کہ میاں صاحب کی ن لیگ کو تن آسانی لے ڈوبی۔ کچھ گھر والوں کو اور کچھ باہر والوں کی۔

کتنا عجیب لگتا ہے جب ایک داماد کیپٹن صفدر اپنے سسر اور قائد نواز شریف کے ہاتھ چومتا ہے، وہ دھکے کھا رہا ہے، پیشیاں بھگت رہا ہے، مریم کا ساتھ دینے پر بار بار جیل بھیج دیا جاتا ہے، وہ خود کو نواز شریف کا ادنیٰ کارکن کہتا ہے آج وہ تو نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑا نظر آئے گا مگر اپنا خون، وہی خون جس کی  فیکٹریوں اور جائیدادوں کی خاطر میاں صاحب کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی دفاعی تقریر کرنا پڑ گئی، وہی خون جس کے آرام اور مستحکم مستقبل کی خاطر میاں صاحب کی سیاسی جدوجہد پر حرف آ گیا۔ وہی اپنا خون جوش نہیں مارتا۔ اپنے بوڑھے باپ کو ہسپتال اور جیل کے چکر کاٹتا دیکھ کر جب اپنا خون، اپنے لوگ بھی نہ تڑپتے ہوں تو پارٹی رہنماؤں کی بےاعتنائی کا کیا شکوہ!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنا سگا ماں جایا، وہ بھائی جسے ہر اچھے برے وقت میں شریک رکھا آج اس بھائی کی اپنے بھائی کے لیے تڑپ کتنی ہے اس پر آپ میرے تجزیے پر اکتفا نہ کریں، دعا کریں کہ مولا انہیں کمر کے درد سے نبردآزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ ایک نام پوچھیں میں فہرست دے دوں ن لیگ کے ایسے مطلب پرست رہنماؤں کی جو آج کڑا وقت پڑنے پر انڈر گراؤنڈ ہیں یا ہائبرنیشن موڈ میں ہیں۔ سب کے پاس ایک دم سالڈ حیلے بہانے ہیں۔

پانچ سال صدر پاکستان کے عہدے کا مزہ لینے والے ممنون حسین کہاں ہیں کوئی بتائے گا؟ کیوں نہیں آج کراچی کی سڑکوں پر نواز شریف کی علالت، مقدمات اور حکومت کے خلاف کوئی مظاہرہ ہوتا؟ کوئی بتائے کہ یہ راجے یہ خواجے یہ چودھری یہ ملک کیوں نہیں کسی چوک پر نعرہ حق بلند کرتے؟ پارٹی کے احسن ومحسن کہاں گئے؟ پارٹی کے دستگیر و عزیز کیا ہوئے؟ ن لیگ کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستیں گھیر کر بیٹھی ارکان اسمبلی کس بھلے وقت کے لیے ہیں؟ یہ پارٹی ٹکٹ اور عہدوں کے دعوےدار کیوں دبکے بیٹھے ہیں؟

اگر تو پچھلے دور حکومت میں مریم نواز  نے اپنے والد کی پارٹی کو اسی ڈگر پر چلنا سکھایا ہے کہ سوشل میڈیا پر خان کی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دو تو انہیں خبر ہو کہ اس محاذ پر آج ن لیگ کی پرفارمنس ماشااللہ بڑی اعلیٰ ہے۔ ادھر میاں صاحب کی صحت بگڑے ادھر یہ ٹوئٹر جانثاران نواز شریف ٹرینڈ چلا دیتے ہیں۔ یہ عاشق سر کٹانے کو نہیں مگر پارٹی کی ناک کٹوانے کو راضی ہیں۔

اگر ن لیگ کی جیل سے باہر لیڈرشپ اتنی ہی متحرک ہوتی تو آج ہسپتال یا کوٹ لکھپت کے باہر کارکنوں کا انبوہ ہوتا، نظریاتی کارکن دو چار تصویریں اتار کر گھروں کو واپس نہیں جاتے یہ ڈٹے رہتے ہیں، نظریاتی کارکن اندھا دھن اپنے قائد کی آواز پر دیوانہ وار می رقصم کی تصویر بن جاتے، بے چارگی کی تصویر بنی مریم نواز کا یہ کہنا کہ والد سے ملاقات کی اجازت بھی نہ ملی، یہ بات سننےکی نوبت ہی نہ آتی اگر ن لیگ کی لیڈرشپ اپنے کارکنوں کے دل میں بستی۔ اتنی بڑی تعداد میں کارکن اور ووٹرز رکھنے والی ن لیگ کے پاس اگر انقلابی سوچ عنقا ہو جائے تو ایسی پارٹی کی سیاسی تربیت پر لامحالہ سوال اٹھتا ہے۔

ن لیگ شہیدوں کی پارٹی نہیں جو سالانہ عرس کر کے اپنی پارٹی کی قربانیاں گنوائے، نہ ہی ن لیگ کے پاس جیالے ہیں جو اپنے قائد کے نام پر جاں سے گزر جائیں۔ ن لیگ کو مولانا کی طرح تابع دار کارکن بھی نہیں ملے جو مدرسے کی اسمبلی کی طرح ایک آواز پر ڈنڈا بردار ہو جائیں۔ ن لیگ ایک جمہوری پارٹی ہے جس کے پاس جمہور کی قوت ہے، ن لیگ کے پاس نظریہ ہو نہ ہو مگر اس کے پاس دکھانے کو اپنی پرفارمنس ہے، جمہور ن لیگ سے پیار کرتی ہے مگر اس پیار کو جنون میں بدلنے کے لیے لیڈرشپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنی بڑی سیاسی جماعت کے پاس اب مریم  نواز کے سوا کوئی غیور رہنما نہیں جو فرنٹ فُٹ پر آ کر للکارے۔

اگر ن لیگی رہنما اور کارکن ایک بندھن میں بندھے ہوتے تو آج رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان یا سعد رفیق کو اپنی جنگ اکیلے نہ لڑنی پڑتی، ویسے بھی ان رہنماؤں کا شکوہ کرنا بنتا نہیں کیونکہ جب ن لیگ کے قدم مریم بی بی یا ان کے بوڑھے والد کو جیل جاتا دیکھ کر نہیں اٹھے تو اور کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ اب یہ حالت ہے کہ ٹوئٹر پر سو دو سو لفظ لکھ کر پارٹی کا قرض اتارنے کی کوشش تو کی جاتی ہے مگر لاٹھی کھانے کو کوئی تیار نہیں۔ ن لیگ قربانیوں کے لیے اب بھی جیل میں قید نواز شریف یا ان کی بیٹی کی جانب ہی دیکھ رہی ہے لیکن  بقول قابل اجمیری

کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاو، میرے لہو کی بہار کب تک

مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ