ڈیل کے لیے متبادل لفظ؟

نواز شریف کی طبیعت واقعی تشویش ناک ہے، مگر اس حوالے سے زلفی بخاری کا بیان، حکومت کا نرم لہجہ اور عدالت کی معمول سے ہٹ کر کارروائی کسی ہوا کا اشارہ دے تو رہی ہے۔۔۔!

اس سے قبل دو بار طبی بنیاوں پر نواز شریف کی درخواستِ ضمانت خارج ہوچکی ہے، تب بھی  ان   کی صحت خراب تھی۔  (فائل تصویر: اے ایف پی)

ملک کے پانچ بڑے اینکرز کو عدالت نے روسٹرم پر بلایا۔ کمرہ عدالت کا منظر یہ تھا کہ کوئی بھی شخص کرسی پر براجمان نہیں تھا، سب کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے کہ روسٹرم پر کیا ہو رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا: ’پاکستان میں کیس کا ٹرائل شروع ہونے سے پہلے میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، ٹی وی پر ڈیل کی باتیں چل رہی ہیں، کون کر رہا ہے ڈیل؟ اگر ڈیل ہو رہی ہے تو عدالت کو ڈیل کے بارے میں بتایا جائے۔ اگر ڈیل  ہے تو اس کی نشاندہی کے لیے عدالت کی معاونت کی جائے۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا: ’ساری قوم کو ہسٹیریا کا مریض بنا دیا گیا ہے، ملک کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ کمرہ عدالت میں میڈیا کے اینکرز یہ سب سن رہے تھے۔‘

 یہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر فوری ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست پر سماعت تھی۔ ہفتے کے دن ججز کی چھٹی ہوتی ہے مگر نواز شریف کی خرابی صحت کے باعث خصوصی بینچ ہفتے کے روز سماعت کر رہا تھا۔ العزیزیہ ریفرنس سے متعلق کیسز پر ہائی کورٹ کا جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ سماعت کرتا ہے، مگر ہفتے کو جسٹس عامر فاروق فیملی کے ہمراہ لاہور گئے ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالت لگائی۔

کیس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال سمیت پانچ اینکرز کو نوٹس جاری کیے گئے اور تمام افراد سے تین گھنٹوں کے اندر جواب طلب کیا گیا۔ عدالت نے یہ واضح کیا کہ تینوں متعلقہ ادارے اگر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں تو انہیں بیانِ حلفی جمع کرانا ہوگا کہ نواز شریف کو کل کو کچھ ہوتا ہے تو تینوں ادارے اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر متعلقہ ادارے نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں تو عدالت درخواست کو خارج کردے گی۔ اس صورت میں اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو یہی ادارے ذمہ دار ہوں گے۔

نیب کی ٹیم جب ہائی کورٹ کے مختصر نوٹس پر عدالت پہنچی تو میرے پوچھنے پر کمرہ عدالت کے باہر نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر نے مجھے بتایا کہ ’میں اپنی گارنٹی نہیں دے سکتا، نواز شریف تو پھر بیمار ہیں ان کی کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے۔‘

وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل جبکہ پنجاب کی نمائندگی کے لیے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بھی ہائی کورٹ پہنچے۔ کوئی بھی نمائندہ اپنے ہمراہ بیانِ حلفی نہ لایا۔ عدالت کو کسی بھی نمائندے نے واضح جواب بھی نہ دیا۔

ججز نے کہا کہ ’آپ ہمارے کندھوں پر نہ ڈالیں، آپ کو ذمہ داری لینی ہوگی۔‘ سیکرٹری داخلہ کو کہا گیا کہ ’آپ سٹینڈ لیں، آپ ریاست ہیں، تمام پاکستانیوں کی ذمہ داری ریاست پر آتی ہے،‘ تاہم سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ’میں اس پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیکرٹری داخلہ کو کہا گیا کہ ’ان کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ پر ہیں، بعد میں آپ نے ہی دیکھنا ہے،‘ مگر سیکرٹری داخلہ نے کوئی موقف نہ اپنایا۔

عدالت نے متعلقہ نمائندگان کو واضح ہدایات لینے کا حکم دیا۔ سماعت میں تین بار وقفہ کیا گیا، ٹال مٹول چلتی رہی، کسی بھی نمائندے نے تحریری طور پر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کا تحریری بیانِ حلفی عدالت میں جمع نہ کرایا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کو واضح ہدایت لینے کا کہا گیا۔ میں نے کمرہ عدالت کے باہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’آپ کیا ہدایات لیں گے اور کس سے رابطہ کریں گے؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’میں رابطہ نہیں کر رہا، ہمیں واضح ہدایات ہیں، ہم نے وہی موقف رکھنا ہے،‘ انہوں نے آدھے گھنٹے کے آخری وقفے میں کسی سے رابطہ نہ کیا۔ ایک بار پھر سے عدالت لگائی گئی، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تو ان کا وہی جواب تھا، تاہم جب عدالت نے کہا کہ اب اس درخواست کا وزیراعظم پاکستان، وزیراعلی پنجاب اور چیئرمین نیب فیصلہ کریں گے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’اگر عدالت انسانی ہمدری کی بنیاد پر نواز شریف کو ضمانت دیتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا،‘ پس یوں بینچ نے نواز شریف کو تین دن کی عبوری ضمانت پر رہائی کا حکم سنا دیا اور تحریری حکم نامے میں وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں طلب کرلیا۔

کمرہ عدالت میں چھٹی کے روز بھی معمول سے زیادہ کا رش تھا۔ میں نے اینکر پرسن ارشد شریف سے پوچھا کہ ’کیا واقعی کوئی ڈیل ہے بھی یا؟‘ جس پر ارشد شریف نے کہا: ’ڈیل کے لیے کوئی متبادل لفظ ہے تو وہ استعمال کریں۔‘

اس سے قبل دو بار طبی بنیاوں پر نواز شریف کی درخواستِ ضمانت خارج ہوچکی ہے، تب بھی ان کی صحت خراب تھی۔ ان درخواستوں کی نیب نے بھر پور مخالفت کی تھی، نیب کی جانب سے عدالتی دائرہ کار پر سوالات اٹھائے گئے تھے، مگر اس بار ایسا کچھ نہ ہوا۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس بار شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کے لیے ضمانت کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو کہ کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہیں، نیب نے اس کی بھی مخالفت نہیں کی۔ نواز شریف کی طبیعت واقعی تشویش ناک ہے، مگر اس حوالے سے زلفی بخاری کا بیان، حکومت کا نرم لہجہ اور عدالت کی معمول سے ہٹ کر کارروائی ۔۔ کسی ہوا کا اشارہ دے تو رہی ہے۔۔۔!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ