’آنکھوں میں بینائی نہیں لیکن خود کو کمزور نہیں سمجھا‘

صوابی کے ایک دور افتادہ گاؤں کی رہائشی اور بینائی سے محروم اسما وکالت کی ٹاپ طالب علم ہیں۔

اسمانے پڑھنے کے لیے گھر میں میگنیفائنگ سی سی ٹی وی کیمرے کو ایک ایل سی ڈی کے ساتھ کنیکٹ کیا ہے، جس کی مدد سے وہ کتابیں پڑھتی اور سبق یاد کرتی ہیں

’عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں معذور ہوں اور نابینا ہوں، لیکن میں اسے معذوری نہیں سمجھتی کیونکہ معذور تو وہ ہوتے ہیں جو تعلیم کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے ایک دور افتادہ گاؤں کی رہائشی اسما سہیل کا، جن کی بینائی بچپن سے کم ہونا شروع ہوگئی تھی اور اب ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہےلیکن انھوں نے اس کمزوری کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں آڑے نہیں آنے دیا۔

انہوں نے کالج تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد صوابی یونیورسٹی کی شعبہ قانون میں داخلہ لیا اور چھٹے سمسٹر تک وہ اپنی کلاس کی ٹاپ طالب علم ہیں۔ اسما پُرامید ہیں کہ وہ باقی دو سمسٹرز میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرلیں گی۔

اسما نے نامہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ نرسری سے لے کر چھٹی جماعت تک کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی ہیں، اُس وقت ان کی بینائی قدرے بہتر تھی ۔

’اُس وقت میں عینک پہن کر پڑھ اور لکھ سکتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بینائی کمزور ہوتی گئی جس کی وجہ سے چھٹی جماعت کے بعد پہلی پوزیشن سے محروم ہوتی گئی اور اسی سلسلے میں ایک دوسرے سکول میں داخلہ لیا، جہاں پر میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں اے ون گریڈ حاصل کر لیا۔‘

اسما جنوبی افریقہ کے مشہور زمانہ لیڈر نیلسن منڈیلا اور امریکی سائنس دان سٹیفن ہاکنگ سے متاثر ہیں۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے منڈیلا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ’نیلسن نے کہا تھا تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا بدل سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ تعلیم ہر صورت میں حاصل کروں گی تاکہ میں اپنی معذوری کو طاقت میں بدل سکوں۔‘

’میں سمجھتی ہوں معذوری ایک خاص اور مختلف صلاحیت ہے جو خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ، کبھی بھی معذوری کو کمزوری نہیں سمجھا۔‘

اسما کیسی پڑھتی اور لکھتی ہیں؟

اسما نے بتایا کہ میٹرک اور انٹر کے امتحانی قوانین کے مطابق اُس وقت انھیں ایک لکھاری مہیا کیا گیا تھا اور وہ امتحان کے دوران لکھاری کو سوالات کے جوابات بتاتی تھیں اور لکھاری اس کو جوابی شیٹ پر لکھ دیتے تھے۔‘

انھوں نے پڑھنے کے لیے گھر میں میگنیفائنگ سی سی ٹی وی کیمرے کو ایک ایل سی ڈی کے ساتھ کنیکٹ کیا ہے، جس کی مدد سے وہ کتابیں پڑھتی اور سبق یاد کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے بتایا کہ انسان اگر چاہے تو کوئی بھی کام نا ممکن نہیں، کیونکہ معروف سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنھوں نے جسمانی طور پر مفلوج ہونے کے باوجود دنیا میں کئی مشہور تجربات اور تھیوریز پیش کیں۔

’اگر سٹیفن ایک انگلی کے ساتھ اتنا کچھ کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کر سکتی کیونکہ میرا تو آنکھوں کے علاوہ باقی پورا جسم بالکل صحت مند ہے۔ انسان میں ایک معذور اعضا پورے جسم کو کبھی بھی معذور نہیں بناتے۔‘

گھر کی طرف سے کتنی سپورٹ ہے؟

اسما نے بتایا ان کے گھر والوں نے انھیں بہت سپورٹ کیا اور ہر ممکن مدد کی کیونکہ ان کا خاندان روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہے۔ ’میرے خاندان نے مجھے اخلاقی، ذہنی اور معاشی طور پر بھرپور سپورٹ کیا اور کبھی بھی کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔‘

اسما نے بتایا انھیں یونیورسٹی لے جانے کے لیے ایک گائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے ، جو ان کے لیے ٹرانسپورٹ وغیرہ کا بندوبست بھی کرتے ہیں، ’ اس کے علاوہ وہ میرے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور یونیورسٹی کے نوٹس اور دیگر مٹیریل بھی تیار کرتے ہیں۔‘

لا ڈگری کا انتخاب کیوں؟

اسما سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے لا ڈگری کا انتخاب ہی کیوں کیا تو انھوں نے بتایا  چونکہ وہ نیلسن منڈیلا اور مہاتما گاندھی سے متاثر ہیں، جو دونوں وکیل تھے اور یہی وجہ ہے انھوں کے مستقبل میں وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

’میرے والد، جو خود بھی ایک وکیل ہیں، میرے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ میری تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہیں اور ہر قسم کی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے