آسٹریلیا کی مشکل وکٹوں کے علاوہ سلیجنگ سے بھی نمٹنا ہو گا

بابر اعظم کو کپتانی ملتے ہی ایک مشکل دورہ ملا ہے اور اگر وہ اس دباؤ کو برداشت کرلیتے ہیں تو پھر ان کے لیے اگلے دورے قدرے آسان رہیں گے۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور آسٹریلیا کے کپتان ایرن فنچ ٹروفی کے ساتھ (پی سی بی)

  پاکستان ٹیم اپنے ریکارڈز کے حساب سے آسٹریلیا پر سبقت رکھتی ہے اور ماضی میں مضبوط آسٹریلین ٹیم کو واضح فرق کے ساتھ شکست سے دوچار کرتی رہی ہے۔

 دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 20 میچز کھیلے جاچکے ہیں جن میں 12 میچوں میں گرین شرٹس فاتح رہے ہیں اور سات میں آسٹریلیا نے جیت کا مزہ چکھا، جبکہ  ٹائی ہونے والا واحد میچ 7 ستمبر 2012 کو دبئی میں کھیلا گیا۔ محمد حفیظ کی کپتانی میں یہ میچ اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتا رہا اور ایک موقعے پر جب آسٹریلیا تقریباً جیت چکا تھا آخری گیند پر عبدالرزاق نے پیٹ کمنز کو عمران نذیر کے ہاتھوں کیچ کرا کے میچ ٹائی کرادیا۔

 پاکستان نے ان20 میچوں میں سے محض ایک میچ ہی آسٹریلیا کی سرزمین پر کھیلا ہے۔ 2010 میں ملبرن میں شعیب ملک کی قیادت میں کھیلا جانے والے واحد میچ میں پاکستان اگرچہ صرف دو رنز سے ہار گیا لیکن کامران اکمل کی جارحانہ بیٹنگ نے 50ہزار تماشائیوں کو زبردست طریقے سے محظوظ کیا۔ تاہم ان کے 33 بالوں پر 64 رنز ٹیم کے کام نہ آسکے۔

 ویسے بھی وہ دورہ خاصا متنازع ہی رہا تھا۔ پاکستان نے اسی سیریز میں آسانی سے جیتا جانے والا سڈنی ٹیسٹ بچوں کی طرح ہار دیا تھا اور کامران اکمل کی وکٹ کیپنگ پر سوالات اٹھے تھے۔ سیریز کے بعد میچ فکسنگ کے الزامات بھی میڈیا میں گشت کرتے رہے تھے۔ اسی سیریز میں قرآن پرقسمیں کھانے کی خبریں بھی آتی رہی تھیں۔

 پاکستان نے اپنے آخری پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز آسٹریلیا کے خلاف جیت رکھے ہیں جن میں سے تین میچ گذشتہ اکتوبر میں متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے۔ تینوں میچوں میں موجودہ کپتان بابر اعظم بیٹنگ میں آگے رہے تو بالنگ میں عماد وسیم کینگروز کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہے۔ سابق کپتان سرفراز احمد نے مہارت سے اپنے بالرز کو استعمال کیا جس سے آسٹریلین کھل کر نہ کھیل سکے۔

 ویسے یہ بات اب تک لوگوں کو سمجھ میں نہیں آسکی ہے کہ سرفراز کو ٹی ٹوئنٹی سے کیوں ہٹایا گیا حالانکہ ان کی کپتانی میں ٹیم نمبر ون بنی اور پے درپے فتوحات حاصل کیں۔ ان کا اس مختصر دورانئیے کی کرکٹ میں متاثر کن ریکارڈ ہے۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ پاکستان نے گذشتہ دنوں سری لنکاکی سی کلاس ٹیم سے سیریز ہاری ہے اور اس سیریز نے توہین آمیز انداز میں سرفراز کی کپتانی کو ختم کیا ہے۔

موجودہ ٹیم میں اب زیادہ تر نئے کھلاڑی ہیں جن کو آسٹریلیا کی وکٹوں سے ہی نہیں بلکہ ان کی زبان درازی کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ جملہ بازی میں کینگروز ہر حد پار کرجانے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسٹریلیا کی ٹیم اس وقت زبردست فارم میں ہے اور ڈیوڈ وارنر کی سری لنکا کے خلاف جارحانہ بیٹنگ نے پاکستانی کیمپ میں سنسنی پھیلارکھی ہے۔ پاکستانی بالنگ کا جو حشر وارنر نے پچھلے ورلڈ کپ میچ میں ٹاؤنٹن میں کیا تھا وہ ابھی تک یاد ہوگا۔

پاکستانی کپتان نے دورے پر روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں جارحانہ کرکٹ کھیلنے کا اعلان کیا تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ جارحانہ کرکٹ کون کھیلے گا۔ پچھلے میچوں میں تو زیادہ تر کھلاڑی جیت سے زیادہ سکور بورڈ پر اپنے رنز کی فکر میں تھ۔ے آخری میچ میں حارث سہیل اور بابر اعظم کی بیٹنگ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیسٹ کرکٹ کا شاہکار لگ رہی تھی۔ جس طرح دونوں نے بیٹنگ کی اس سے بہت زیادہ شکوک نے جنم لیا ہے ۔

فخر زمان اور آصف فارم میں نہیں ہیں جبکہ رضوان اور افتخار سے آپ کیا امید کرسکتے ہیں جن کی تو ابھی مہندی بھی نہیں اتری۔ لے دے کر عماد وسیم اور شاداب خان ہی ہٹر نظر آتے ہیں۔

بالنگ میں سڈنی کی وکٹ پر سپن کی مدد کے باعث پاکستان شاید سپنرز پر انحصار کرے لیکن 37 سالہ محمد عرفان کیا کھیلیں گے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بہت مشکل ہے۔ بہتر ہوگا اگر ان کی جگہ حسنین کو کھلایا جائے۔ عرفان کے لیے زیادہ مناسب پرتھ کا آخری میچ ہو گا جہاں وکٹ میں پیس بھی ہے اور باؤنس بھی۔

 بابر اعظم اور فخر زمان تو اوپننگ کریں گے لیکن ون ڈاؤن کی پوزیشن پر ممکن ہے رضوان کو کھلایاجائے جو آج کل بہت اچھے فارم میں ہیں۔ حارث سہیل اور آصف مڈل آرڈر میں ہوں گے جبکہ عماد وسیم اور افتخار احمد آل راؤنڈر کا کردار اداکریں گے جبکہ شاداب عامر اور وہاب کے ساتھ محمد حسنین یا عرفان بالنگ اٹیک سنبھالیں گے۔

آسٹریلین ٹیم اس وقت غالباً دنیا کی سب سے خطرناک ٹیم ہے۔ ایرن فنچ اور وارنر کے ساتھ سمتھ اور ٹرنر کی صورت میں ایک بہترین بیٹنگ لائن اپ موجود ہے جبکہ سٹارک اور کمنز شاید اس وقت سب سے بہترین اٹیک بالرز ہیں۔

 مجموعی طور پر دونوں ٹیمیں مضبوط نظر آتی ہیں لیکن پاکستانی ٹیم میں تجربے کی کمی نظر آتی ہے۔ بابر اعظم کو کپتانی ملتے ہی ایک مشکل دورہ ملا ہے اور اگر وہ اس دباؤ کو برداشت کرلیتے ہیں تو پھر ان کے لیے اگلے دورے قدرے آسان رہیں گے ۔لیکن سب جانتے ہیں پاکستان کا ہر کپتان گراؤنڈ سے زیادہ اپنے ڈریسنگ روم میں جنگ کی کیفیت میں ہوتا ہے جہاں آپ جیت کر بھی سازشوں کے شکار رہتے ہیں

تو جناب تیار ہوجائیے ایک دلچسپ سیریز کے لیے جہاں چوکوں اور چھکوں کی بارش ہونے والی ہے !!!  

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ