سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سنیچر کو اسلام آباد اپنے پہلے سرکاری دورے پر پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق تو اس دورے میں وہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے لیکن آخر اس سے سعودی عرب کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ کیوں پاکستان کو اتنی اہمیت دے رہا ہے۔
سعودی عرب میں پاکستان کے سابق نائب سفیر عمر خان شیرزئی کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے بعد سعودی عرب کے لیے پاکستان اہم ہے۔ سعودی عرب پاکستان سے دفاعی تعاون کا خواہاں ہے۔ دفاعی تعاون ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کی بڑی وجہ ہے۔‘
1990 کے اواخر میں سعودی عرب میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سابق سفیر خالد محمود نے کہا کہ ’پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ تعینات کرنا سعودی عرب کا پاکستان پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔‘
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا نیا دور؟
سفارتی تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں شخصیات کے باہمی تعلقات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے برادرانہ مراسم جلد ہی استوار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس سے دونوں ممالک کو مزید قریب لانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا کیا جہاں ان کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ عمران خان کی خصوصی درخواست پر سعودی حکومت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین ارب ڈالرز جمع کروائے ہیں تاکہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوسکے۔ سعودی عرب نے موخر ادائیگی پر پاکستان کو تین ارب ڈالرز مالیت کا تیل دینے کا بھی اعلان کیا۔
سعودی سفیر کے مطابق اس دورے میں ولی عہد محمد بن سلمان 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر دستخط کریں گے۔ سابق سفیر خالد محمود کا کہنا ہے کہ ’یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کر رہا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کی مدد کرتا آیا ہے۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ ہے کیونکہ سعودی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حرمین شریف پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔‘
پاکستان کے جوہری دھماکوں میں سعودی عرب کا کردار
1951 میں شاہ ابن سعود کے زمانے میں پاکستان سے سعودی عرب کے درمیان باضابطہ دوستانہ روابط کا آغاز ہوا۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ 70 کی دہائی میں پاکستان نے جوہری پروگرام کا آغاز کیا تو سعودی عرب کو اعتماد میں لیا گیا۔ 1998 میں سعودی عرب میں تعینات نائب سفیر عمر خان شیرزئی کا کہنا ہے کہ جوہری دھماکوں کے تجربے سے پہلے سفیر کے ہمراہ سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز سے انہوں نے ملاقات کی اور جوہری دھماکوں کے تجربے اور ممکنہ عالمی پابندیوں سے متعلق حکومت کے پاکستان کے خدشات سے متعلق آگاہ کیا تھا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت سعودی فرمانروا شاہ فہد نے کہا کہ ’سعودی عرب توقعات سے بڑھ کرپاکستان کی مدد کرے گا۔‘
ستر کی دھائی میں پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سعودی عرب سے جوہری پروگرام کے لیے مالی معاونت بھی مانگی تھی جو انہیں دی گئی تھی لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ اس سے سعودی عرب کو بھی تحفظ دیا جائے گا۔
عالمی پابندیوں کے بعد سعودی عرب نے کئی سال کے لیے 5 بلین ڈالرز تیل کی فراہمی مفت کر دی جس کی وجہ سے ذرمبادلہ کی مد میں پاکستان کو اربوں ڈالر کی بچت ہوئی۔ جبکہ اُس وقت سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیرخالد محمود کا کہنا ہے کہ “جوہری دھماکوں کے بعد شاہ فہد سے ملاقات کی اور شاہ فہد نے کہا کہ سعودی عرب جوہری پھیلاو کے تدارک کے معاہدے کا رکن ہونے کے ناطے جوہری دھماکوں کے خلاف ہے لیکن اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ یہ دھماکے کرنا پاکستان کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ اور سعودی عرب پاکستان پر عائد عالمی پابندیوں کا ساتھ نہیں دے گا۔‘ جوہری دھماکوں کے بعد سعودی وزیر دفاع نے پاکستان میں ایٹمی تنصیبات کا دورہ بھی کیا تھا۔
سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟
پاکستان کوہمیشہ سعودی عرب سے معاشی مدد ملتی ہے لیکن جواب میں سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ اس بات کا حکومتی حلقوں کی جانب سے کبھی واضح انداز میں نہیں دیا گیا۔ سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے سٹریٹیجک تعاون کا خواہش مند رہا ہے۔ سعودی عرب میں 12 سال گزارنے والے پاکستانی سفیر عمر خان شیرزئی کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کے لیے امریکہ کے بعد کے اگر کوئی ملک اہم ہے تو وہ پاکستان ہے۔ سعودی عرب پاکستان سے دفاعی تعاون کا خواہاں ہے۔‘
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کے اعتبار سے پاکستان انتہائی اہم رہا ہے۔ اگر ریاض جدید اسلحہ امریکہ سے لیتا ہے تو افرادی قوت اسے پاکستان فراہم کرتا ہے۔ ساٹھ کی دھائی میں پاکستان نے ہی سعودی ائر فورس بنانے میں مدد دی۔ 1969 میں پاکستانی پائلٹس نے جنوبی سرحد پر یمن کی جانب سے حملہ پسپا کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ستر اور اسی کی دھائیوں میں تقریبا پندرہ ہزار پاکستانی فوجی وہاں تعینات رہے۔ یہ قریبی عسکری تعاون جنرل راحیل شریف کے بطور اسلامی فورس کے سربراہ کے انتخاب سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
مشترکہ خفیہ تعاون
پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر اسی کی دھائی میں افغانستان میں پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کی معاونت کی۔ ایک اندازے کے مطابق افغان جہاد کا آدھا خرچہ سعودی عرب نے برداشت کیا تھا۔ شعودی عرب کے سابق انٹیلجنس سربراہ پرنس ترکی بن سلطان کا آئی ایس آئی کے ساتھ تعاون کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ ’دنیا میں دو ممالک کے درمیان تعاون کا بہترین نمونہ تھا۔‘
دونوں ممالک ایران کے بڑھتے اثرو رسوخ کی بھی فکر میں مشترک ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید ایران کو گوادر میں سعودی عرب کی جانب سے آئل ریفانری لگانے پر اعتراض ہو لیکن بظاہر ایران نے اس کی تردید کر دی ہے۔