نواز شریف کے ملک سے جانے کا فیصلہ وزیرِ اعظم کا تھا: چیف جسٹس 

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ جس کیس کا حوالہ وزیراعظم نے ہمیں دیا، اس معاملے کا اصول وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔

طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ (سکرین گریب)

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کا بار وزیراعظم کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی ہے۔‘

جسٹس کھوسہ 20 دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے ٹھیک ایک مہینہ پہلے اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں موبائل ایپلیکیشن کی رونمائی کی تقریب کے موقعے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جس کیس کا حوالہ وزیراعظم نے ہمیں دیا، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’طاقت کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے۔ آپ کو یاد نہیں ہے ہم نے ایک وزیراعظم کو نااہل کیا اور ایک کو سزا دی، جبکہ ایک سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے والا ہے۔‘

چیف جسٹس نے سابق آرمی چیف کا نام نہیں لیا تاہم ہوا میں مکے لہرا کر اشارہ دے دیا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی بات کر رہے ہیں۔ 

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اردو میں بات کرتے ہوئے سات بار لفظ طاقتور کا استعمال کیا اور بارہا مثالیں دیں کہ اعلیٰ عدلیہ کمزور کا بھی انصاف دیتی ہے اور طاقتور کو سزا بھی دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل تقریر کرتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس اور آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں انصاف کریں اور حکومت جو بھی مدد درکار ہو گی، انہیں مہیا کر دی جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے دو دن پہلے ایک بڑا خوش آئند اعلان کیا ہے میں اس اعلان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی اعلان بہت اچھے وقت پر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وسائل کے بغیر یہ سب کچھ کر رہے ہیں جب وزیراعظم وسائل دیں گے تو نتائج دگنا ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں اس وقت 3100 جج کام کر رہے ہیں جنہوں نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے ہیں یہ 36 لاکھ مقدمات کمزور اور ناتواں لوگوں کے ہی ہیں، ان میں سے دو یا تین ہی طاقتور لوگ ہوں گے۔

انہوں نے میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی میڈیا کی مہربانی سے طاقتور کہلانا شروع ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ طاقت کا مسئلہ ہے یہ اتنے ناتواں لوگ تھے جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے۔‘

نامہ نگار مونا خان کے مطابق چیف جسٹس نے کہا منشیات کے حوالے سے 16 اضلاع میں ایک بھی کیس زیر التوا نہیں ہے اس بات پر وہاں موجود عدالتی صحافیوں نے آپس میں تبصرہ کیا کہ اگر منشیات کا کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں تو رانا ثنا اللہ کے کیس کا کیا ہوا؟

چیف جسٹس نے ججوں کی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا کہ ایک جج اپنی بہن کی شادی پر نہیں گئے اس لیے کے پہلے مقدمات نمٹا لیں جب کہ اور ایک جج نے چیف جسٹس کو بتایا کہ انہوں نے مقدمات نمٹائے کے لیے اپنی شادی ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں یہ باتیں سُن کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک فوجداری مقدمے کا فیصلہ صرف تین ماہ میں کر دیا۔ جو طبقے ہمارے ججوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ تھوڑی احتیاط سے کام لیں، جج یہ کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ عدلیہ بدل چکی ہے اور یہ 2009 سے قبل والی عدلیہ نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان