جج کے رویے کا خود جائزہ لیں گے: چیف جسٹس

احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مجرم یا اسے رہا کرانے کے خواہشمندوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد سوالات اُٹھائے کہ کیا سپریم کورٹ کی مداخلت کا فائدہ ہو گا یا صرف خبریں بنیں گی؟ (فائل تصاویر)

سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی متنازع ویڈیو کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر کے رپورٹ تین ہفتوں میں سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

آج کی سماعت میں تینوں ججوں نے دوران سماعت بھی مشاورت جاری رکھی جبکہ فیصلہ دینے سے پہلے پانچ منٹ تک تینوں جج صاحبان مشورہ کرتے رہے۔ 

عدالت کے اہم سوالات:

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد سوالات اُٹھائے کہ کیا سپریم کورٹ کی مداخلت کا فائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’جج کے کنڈکٹ کا خود جائزہ لیں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے؟ کیا مجرم کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اور حرم شریف میں ملنا درست ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ شواہد کا جائزہ لے کر خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ میں ابھی تک کسی فریق نے درخواست نہیں دی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’دلچسپ امر ہے کہ مجرم نے تاحال ہائی کورٹ میں درخواست نہیں دی۔ مجرم یا اسے رہا کرانے کے خواہش مندوں نے ہائی کورٹ سے کیوں رجوع نہیں کیا؟‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت ایف آئی اے کی رپورٹ کا جائزہ لے کر دیکھے گی کہ آگے کیا کرنا ہے، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں نہیں مارے جاسکتے۔‘

عدالت کے پاس کون سے آپشنز موجود؟

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس یہ آپشنز ہیں جن کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

ایک آپشن ایف آئی اے اور دوسرا آپشن نیب کے ذریعے توہین عدالت کی کارروائی ہے۔ تیسرا آپشن تعزیراتِ پاکستان اور چوتھا پیمرا کا قانون ہے۔ پانچواں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن جبکہ چھٹا آپشن حکومت کی جانب سے بنایا گیا تحقیقاتی کمیشن ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ تمام درخواستیں خارج کردیں جبکہ آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت خود فیصلہ کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان آپشنز پر عمل کرنے سے ہائی کورٹ میں اپیل کی کارروائی متاثر ہو سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ شواہد کا جائزہ لے کر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف  دے سکتی ہے کیونکہ جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں۔

’مریم نواز کو سائبر کرائم کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ ’الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت تین سال قید اور دس لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ کسی کی فحش ویڈیو یا تصویر بناکر بلیک میل کرنے کی سزا 5 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ ہے جبکہ دفعہ 13 کے تحت الیکٹرانک جعل سازی پر تین سال سزا اور ڈھائی لاکھ جرمانہ ہے۔

سینئیر عدالتی صحافی ناصر اقبال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا سائبر ایکٹ پڑھ کر سنانے کا مقصد شاید مریم نواز پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ مزید ویڈیو جاری نہ کریں۔ اگر جاری کریں گی تو الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘

’سپریم کورٹ کا کام تحقیقات کرنا نہیں‘

انگریزی اخبار دی نیشن سے منسلک سینئیر صحافی ٹیرنس سگامنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے جو آپشنز رکھے تھے اصولاً اٹارنی جنرل کو اُن نکات پر دلائل شروع کرنے تھے یا تجویز دینی تھی لیکن اٹارنی جنرل نے مریم نواز پر سائبر ایکٹ کے تحت ایف آئی اے میں درخواست اور توہین عدالت کے آپشنز پہلے دیے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آج درخواستیں خارج کر دینی چاہیے تھیں۔ جب ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اور عدالت خود کہہ رہی ہے کہ حتمی فیصلہ تو ہائی کورٹ کے اپیلٹ بینچ نے ہی کرنا ہے تو سپریم کورٹ میں سماعت تین ہفتے تک ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’جب اٹارنی جنرل دلائل میں تاریخ بھول رہے تھے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے دخل اندازی کرکے اٹارنی جنرل کو پوائنٹ مہیا کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے ذہن میں کچھ اور چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام تحقیقات کرنا نہیں ہے۔‘

دوسری جانب ڈان اخبار سے منسلک صحافی ناصر اقبال نے آج کی سماعت کے حوالے سے کہا کہ ’عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ کرنا انہوں نے وہی ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ نہیں ماریں گے، جتنی سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے۔‘

ناصر اقبال نے مزید کہا کہ ’عدالت نے بارہا ن لیگ کو اشارہ دیا ہے کہ اُن کو ریلیف ہائی کورٹ سے ہی مل سکتا ہے، اس لیے ن لیگ کو یہ ویڈیو اضافی ثبوت کے طور پر ہائی کورٹ میں جمع کروانی چاہیے تھی۔‘

سابق سیشن جج اور سینئیر وکیل شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ اب محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سماعت پر بھی چیف جسٹس نے وکلا سے آپشن طلب کیے تھے اور آج اٹارنی جنرل نے بھی اعلیٰ عدلیہ کو براہ راست مداخلت سے منع کیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان