بھارتی اخبار دی ہندو کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بھارتی سکیورٹی ایجنسیز نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں حالیہ دنوں میں داعش اور اس کے اتحادی گروہوں سے تعلق رکھنے والے چھ سو افراد میں ایک بھارتی خاتون کی شناخت کی ہے۔ ان چھ سو افراد نے گذشتہ دس دنوں کے دوران افغان حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
ایک اعلی عہدیدار نے اخباردی ہندو کو بتایا کہ جن خاتون کی شناخت ہوئی ہے ان کا نام سونیا سبیسٹن عرف عائشہ ہے، ان کی عمر 32 سال ہے اور وہ کیرالہ کے علاقے کرسرگود سے تعلق رکھتی ہیں۔
عائشہ ان 21 افراد میں شامل تھیں جو 2016 میں خراسان (افغانستان) منتقل ہوئے تھے جسے انتظامی طور پر داعش کا ایک صوبہ سمجھا جاتا تھا۔ حکام کے مطابق یہ افراد ایران کے راستے پیدل افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔
بھارتی اخباروں دی ہندو اور انڈیا ٹوڈے کے مطابق کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ عائشہ داعش کے ماسٹر مائنڈ عبدالرشید عبداللہ کی اہلیہ ہیں۔ عبدالرشید کیرالہ میں داعش کے لیے بھرتیاں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے جو اب ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہ افغانستان میں مئی 2019 میں امریکی فوج کی ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ 2016 میں افغانستان روانہ ہوتے وقت عائشہ کا دو سالہ بچہ بھی ان کے ہمراہ تھا تاہم ان کے بچے کے بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2015 میں افغانستان میں داعش کی ولایت خراسان کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس میں تحریک طالبان کے سابقہ جنگجو شامل ہوئے تھے۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ہتھیار ڈالنے والے داعش جنگجوؤں کی چند تصاویر کا جائزہ لیا ہے۔ یہ تصاویر عوامی طور پر بھی دستیاب ہیں۔ ان افراد میں سے ایک سونیا سبیسٹن محسوس ہوتی ہیں۔ تصویر میں وہ ایک بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔‘
بھارتی حکام کو ابھی تک افغان حکام کی جانب سے سرکاری سطح پر کوئی تصدیق موصول نہیں ہو سکی۔
خفیہ تربیت:
دی ہندو کے مطابق 2017 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی جانب سے دو مشکوک افراد کے خلاف دائر کردہ فرد جرم کے مطابق سونیا 31 مئی 2016 کو اپنے شوہر عبدالرشید کے ساتھ ممبئی کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی تھیں۔
کیرالہ کے بعض رہائشیوں کو 2016،2017 اور 2018 میں کچھ پیغامات موصول ہوئے تھے جس میں انہیں آگاہ کیا گیا تھا کہ ان کے رشتہ دار افغانستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ پیغامات اشفاق مجید نامی شخص کی جانب سے بھیجے گئے تھے جو کہ افغانستان جانے والے اس گروہ کا حصہ تھے۔ حکام کے مطابق وہ ان پیغامات کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔
دی ہندو کے مطابق 17 نومبر کو ایک ویب سائٹ (gandhara.rferl.org) نے مشرقی ننگر ہار صوبے کے گورنر شاہ محمود میاں خیل سے منسوب ایک بیان میں لکھا تھا کہ ’ہتھیار ڈالنے والے افراد میں 225 مرد، 190 خواتین اور 200 بچے شامل ہیں۔