بلوچستان میں طلبہ سیاست کا راستہ کون روک رہا ہے؟

نوابزادہ لشکری رئیسانی سمجھتے ہیں کہ اچانک پیدا ہونیوالے لیڈروں نے ملک کو آج معاشی اور سیاسی طور پر تباہ کردیا ہے جن کی اکثریت کی چاپلوس ہے اور ان میں ارتقائی سیاسی تربیت کا فقدان ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں گورنر بلوچستان کی جانب سے جاری ایک حکم نامےکے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد  کردی گئی ہے تاہم اس کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔(سوشل میڈیا بلوچستان یونیورسٹی)

بلوچستان کی سیاست میں طلبہ کا کردار ہمیشہ سے مسلم رہا ہے اور آج قومی سیاست کرنیوالے اکثر سیاستدان ماضی میں طلبہ سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔

طلبہ سیاست میں سرگرم رہنےوالے معروف رائٹر اور دانشور ڈاکٹر  شاہ محمد مری سمجھتے ہیں کہ غیر سیاسی پارلیمنٹ ، غیر سیاسی صوبائی حکومت اور غیر سیاسی گورنر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا کہ  طلبہ سیاست کو ہر دور میں پابندی کا سامنا رہا ہے  اس کا زیادہ اثر بلوچستان میں ہے کیوں کہ یہاں سیاست کا محور ہی طلبہ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی بنیاد 1920 میں رکھی  گئی جب ینگ بلوچ کے نام سے سیاسی  جماعت  عبدالعزیز کرد کی قیادت میں وجود میں آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق بلوچستان میں چونکہ ٹریڈ یونین باقی جگہوں کی طرح نہیں ہے تو یہاں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کے باعث سیاسی قیادت اور کارکنوں کی کھیپ بنتی رہی ہے ۔

ڈاکٹر مری کے مطابق 1950 کی دہائی کے آخر میں بلوچستان میں طلبہ سیاست کی ابتدا جب کہ باقاعدہ آغاز 1960 میں ہوا۔ تب بلوچ اور پشتون طلبہ نے اپنی تنظیمیں بنائیں۔

 جمعیت  طلبہ اسلام کے صوبائی صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے اور بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے سربراہ ملک سکندر  ایڈووکیٹ کا خیال ہے کہ سیاست میں رہنے والا طالب علم سیاست کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتا ہے۔

ملک سکندر ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے دور میں جو بھی طالب علم سیاست میں ہوتا وہ اپنی جماعت کے مینیفیسٹو کی پابندی کرتا تھا۔

ملک سکندر ایڈوکیٹ کے مطابق طلبہ تنظیمیں ہمیشہ ایک سلوگن کے تحت چلتی تھیں اور تمام کارکن اس کی لاج رکھتے۔ کوئی بھی ماحول کو خراب کرنےکا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ملک سکندر ایڈووکیٹ کے بقول آج بلوچستان اسمبلی میں موجود اکثر پارلیمنٹرینز  جیسے نصراللہ زیرے اور احمد نواز بنگلزئی اسی طلبہ سیاست کی پیداوار ہیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچ جو وزیر اعلی بلوچستان بھی رہے، وہ بھی طلبہ سیاست سے ہی سیکھ کر آگے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلبہ کو سیاست کی اجازت نہیں ہوگی تو ان میں قابلیت تو ہوگی لیکن انہیں اسے مثبت طریقے سے استعمال کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوگا۔

 واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں گورنر بلوچستان کی جانب سے جاری ایک حکم نامےکے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد  کردی گئی ہے تاہم اس کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق سیاسی جماعتوں کو طلبہ تنظیموں کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ انہیں پڑھے لکھے لوگ ملتے ہیں جنہیں کسی چرواہے اور کسان کی نسبت سمجھانا آسان ہوتا ہے۔

 دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی سمجھتےہیں کہ کسی بھی جمہوری معاشرے کی تشکیل میں طلبہ سیاست کا اہم کردار ہوتا ہے۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج بھی ہمارے پارلیمنٹ اور سینٹ میں جو عوام کے حقوق کی آواز اٹھا رہے ہیں  وہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے سیاست کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے کیا۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی کے مطابق جب بھی مارشل لا لگا، ون یونٹ کا خاتمہ ہوا، تو اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں طلبہ تنظیمیں ہی سامنے رہی ہیں۔ نوابزادہ لشکری کے بقول ’مجھے لگتا ہے کہ یہاں نارتھ کوریا کی طرز کا معاشرہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں کے لوگ اپنے سیاسی اور انسانی حقوق سے بے خبر ہیں۔  نوابزادہ لشکری رئیسانی کے مطابق کسی بھی سنجیدہ   سماج کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہےکہ اس کے نوجوان سیاسی عمل کا حصہ بنیں تاکہ ایک میچور معاشرہ تشکیل پا سکے۔

نوابزادہ لشکری  سمجھتے ہیں کہ اچانک پیدا ہونیوالے لیڈروں نے ملک کو آج معاشی اور سیاسی طور پر تباہ کردیا ہے جن کی اکثریت کی چاپلوس ہے اور ان میں ارتقائی سیاسی تربیت کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو قوتیں پاکستان کو بار بار سامراجی ممالک کے ہاتھوں بیچتی رہی وہ نہیں چاہتیں کہ طلبہ سیاست کریں جوہمارےمستقبل کے لیے ایک خطرہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان