صحافی کی موت: ’معلوم نہیں بھائی بغیر تنخواہ گھر کیسے چلا رہا تھا‘

سات ماہ کی تنخواہ سے محروم صحافی شیخ عرفان کی موت کے بعد ایک بار پھر میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کا بحران سامنے آیا ہے۔

جیکٹ میں ملبوس شیخ محمد عرفان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کھڑے ہیں۔

کراچی میں نجی چینل نیوز ون کے کرائم رپورٹر شیخ محمد عرفان بدھ کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ دو بچوں کے والد اور تقریباً 25 سال سے میڈیا انڈسٹری سے وابستہ عرفان کئی ماہ سے شدید ذہنی دباؤ اور مالی مشکلات کا شکار تھے۔ اس کی وجہ پچھلے سات ماہ سے انہیں تنخواہ کا نہ ملنا تھا۔

عرفان نے 1995 میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ مختلف اخبارات جیسے کہ ایوننگ سپیشل، ڈیلی مشرق، روزنامہ آغاز، روزنامہ ریاست اور روزنامہ قومی اخبار سے وابستہ رہے۔ بطور رپورٹر عرفان نے مختلف نجی ٹی وی چینلز میں فرائض سرانجام دیے جن میں اے آر وائی نیوز، وقت ٹی وی اور ٹی وی ون شامل ہیں۔

ایل ایل ایم ڈگری یافتہ اور شعبۂ قانون میں پی ایچ ڈی کر رہے عرفان پچھلے آٹھ سال سے نیوز ون سے وابستہ تھے اور سات ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کے باوجود بھی ادارے کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے۔

کراچی میں طارق روڈ پر واقع سوسائٹی قبرستان میں بدھ کو عرفان کی تدفین کی گئی۔ ان کے چھوٹے بھائی شیخ محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’عرفان انتہائی خود دار شخص تھے۔ ان کے لیے صحافت صرف پیشہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی صحافت کے لیے وقف کر رکھی تھی اور انہوں نے کبھی کوئی دوسری نوکری نہیں کی۔‘

’میرے بھائی عرفان سات ماہ سے تنخواہ سے محروم تھے اور وہ گھر میں واحد کمانے والے تھے۔ ان کا ایک سات سال کا بیٹا اور نو سال کی بیٹی ہے۔ بیوی گھریلو خاتون ہیں۔ عرفان نے شدید مالی مشکلات کے باوجود کبھی ہم سے پیسے نہیں مانگے۔ عام آدمی کو اگر ایک ماہ کی تنخواہ نہ ملے تو اس کا گھر چلانا مشکل ہوجاتا ہے، پتا نہیں سات ماہ سے بھائی بغیر تنخواہ کے گھر کیسے چلا رہے تھے کیوں کہ یہ نوکری ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان کے انتقال کی خبر سنتے ہی کراچی کی صحافتی برادری میں ہلچل مچ گئی، انہوں نے کافی بڑی تعداد میں نیوز ون کے دفتر کے باہر احتجاج کیا، جس میں نیوز ون کے ملازمین بھی شامل ہوگئے۔

احتجاج میں ناصرف عرفان بلکہ چینل کے باقی ملازمین کی پچھلے سات ماہ کی تنخواہیں ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ احتجاج پانچ گھنٹے تک جاری رہا جس کے باعث چینل کی نشریات بھی متاثر ہوئیں۔ آخر کار نیوز ون انتظامیہ اور صحافیوں کے درمیان تحریری معاہدہ طے پا گیا۔

ٹی وی چینل نے صحافیوں سے درخواست کی کہ معاہدے کی کاپی سوشل میڈیا یا ٹی وی چینلز پر نشر نہ کی جائے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سربراہ جی ایم جمالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تحریری معاہدے کے تحت پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے مرحوم کی بیوہ کو فوری طور پر جاری کیے جائیں گے جبکہ ان کے بچوں کی عمر اٹھارہ سال ہونے تک تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری چینل انتظامیہ کی ہوگی۔‘

’سات ماہ سے رکی ہوئی تنخواہوں میں سے دسمبر تک تین تنخواہیں ادا کر دی جائیں گی۔ کسی صحافی کے ساتھ انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اگر انتظامیہ معاہدے پر عمل نہیں کرتی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔ معاہدے پر نیوز ون کے طاہر خان کی جانب سے ان کے سی ای او شاہد جاوید نے دستخط کیے۔‘

صحافیوں کا معاشی قتل کیسے ہو رہا ہے؟

جمالی کے مطابق پاکستان میں اس وقت 5600 صحافی اور میڈیا ورکرز میڈیا کی معاشی بدحالی کا شکار اور کئی ماہ سے بے روزگار ہیں۔ ان میں سے کئی ورکرز کی تنخواہیں روک کر یا فورس ریزگنیشن کے نام پر انہیں نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا گیا یا ڈاؤن سائزنگ کا بہانہ بنا کر انہیں خود ہی نکال دیا گیا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کو موصول ہونے والی شکایات کے مطابق اِس وقت چند اداروں کو چھوڑ کر باقی تمام چینلز اور اخبارات میں دو سے 11 ماہ تک کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ اردو، پشتو، سندھی اور بلوچی کے کُل 34 رجسٹرڈ نیوز چینلز میں سے دو کے علاوہ ہر نیوز چینل میں کئی ماہ سے واجبات ادا نہیں ہوئے۔  

جی ایم جمالی کے مطابق ’امت اخبار میں 11 ماہ سے ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے گئے اور حال ہی میں ملازمین کو صرف ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایکسپریس نیوز، جیو نیوز، دی نیوز، سماء نیوز، جنگ، اے آر وائی، ڈان نیوز چینل اور ڈان اخبار نے ملازمین کی 30 سے 40 فیصد تنخواہیں کم کر دی ہیں۔

’اس معاشی بدحالی کے ذمہ دار چینلز خود ہیں کیوں کہ چینل شروع کرتے وقت یا لوگوں کو نوکری دیتے وقت یہ نہیں کہا جاتا کہ چینل کے تمام اخراجات حکومت کے دیے ہوئے اشتہارات کے پیسوں سے پورے کیے جائیں گے۔‘

دوسری جانب، کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران کا ماننا ہے کہ میڈیا انڈسٹری کی بدحالی کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’سٹیل ملز، واپڈا اور پی آئی اے کو بچانے کے لیے حکومت اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن جب میڈیا کی بات آتی ہے تو حکومتی ادارے صحت مہم کے اشتہارات بھی مفت میں چلوانا چاہتے ہیں۔ حکومت اب بھی چاہے تو میڈیا انڈسٹری کو اس معاشی بحران سے نکال سکتی ہے، اس انڈسٹری میں پانچ سے دس ارب رپوں کی سرمایہ کاری درکار ہے۔‘

رواں سال جولائی میں شائع ہونے والی آر ایس ایف کی رپورٹ ’میڈیا اونرشپ مانیٹر ان پاکستان‘ کے مطابق 2013 سے 2017  تک حکومت پاکستان نے اشتہارات کی مد میں پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کو 15.7 ارب روپے دیے۔

2018 کے الیکشن کے بعد نئی حکومت نے اپنا اشتہارات کا بجٹ تقریباً 70 فیصد کم کر دیا، جس سے میڈیا انڈسٹری شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئی۔

رپورٹ کے مطابق 17-2016 میں پاکستان کے میڈیا چینلزمیں اشتہارات کی کل مالیت 87.7 ارب روپے تھی۔ 2017-18 میں اشتہارات کے مجموعی کاروبار میں سات فیصد کمی آگئی اور 2019  میں یہ تقریباً 30 فیصد مزید کم ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت