’ابو ہمام، میں یزیدی تھی کیا اس لیے میرا ریپ کیا؟ ‘

14 برس کی عمر میں داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والی عشراق جو 100 ڈالر کے عوض جنسی غلام بنا کے فروخت کر دی گئیں، انٹرویو میں ریپ کرنے والے سے سوالات کرتی ہیں۔

یزیدی خاتون اشراق حاجی حمید نے جب اس شخص سے سوال کرنا شروع کیے جو انہیں جنسی غلام بنا کر خریدا تھا تو وہ اپنے آنسو روک نہیں پائیں (سکرین گریب)

عشراق حاجی صرف 14 سال کی تھیں جب داعش نے انہیں اغوا کیا۔ انہیں اپنے خاندان سے الگ کرنے کے بعد سیکس سلیو  یعنی جنسی غلام کے طور پر 100 ڈالر میں بیچ دیا گیا۔

پانچ سال بعد وہ بہادری سے اس شخص کا سامنا کرتی ہیں جس نے انہیں دن میں کئی بار تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا۔

ایک دردناک انٹرویو میں عشراق اپنے اوپر گزری اس درد ناک کہانی کو بیان کرتی ہیں جب ان کے سامنے ابو ہمام نامی اس اغوا کار کو لایا جاتا ہے جس سے انہیں سوال کرنے تھے۔

وہ اس سے پوچھتی ہیں ’ابو ہمام اوپر دیکھو، تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیوں؟ اس لے لیے کہ میں یزیدی تھی؟ میں 14 سال کی تھی جب تم نے میرا ریپ کیا۔ اوپر دیکھو۔ کیا تمہیں احساس ہے؟ کیا تم میں کوئی غیرت ہے؟‘

یزیدی خاتون اشراق حاجی حمید نے جب اس شخص سے سوال کرنا شروع کیے جو انہیں جنسی غلام بنا کر خریدا تھا تو وہ اپنے آنسو روک نہیں پائیں۔

ابو ہمام ان کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے ہتھکڑی لگی ہے اور اس نے جیل کا پیلا یونیفارم پہن رکھا ہے۔ وہ اس وقت عراق میں قید ہے لیکن حکام نے عشراق کو اجازت دی کہ وہ ٹیلی ویژن پر اس کا سامنا کر سکیں۔

ابوہمام کا سر جھکا ہوا ہے اور وہ عشراق سے نظریں نہیں ملا پا رہا اور انہیں کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔

عشراق مزید کہتی ہیں ’میں 14 سال کی تھی۔ تمہاری بیٹی ، بیٹے یا بہن کی عمر جتنی۔ تم نے میری زندگی برباد کر دی۔ تم نے میرے تمام خواب چکنا چور کر دیے۔ میں داعش کی قید میں تھی۔ تم نے مجھے قید کر رکھا تھا۔ لیکن اب تمہیں درد، تکلیف اور تنہائی کا احساس ہو گا۔ اگر تمہارے کوئی احساسات جذبات ہوتے تو تم میرا ریپ نہ کرتے۔ میں 14 سال کی تھی، تمہارے بیٹے، بیٹی جتنی۔‘

اتنا کہنے کے بعد عشراق زمین پر گر پڑیں اور بے ہوش ہو گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پہلا موقع نہیں کہ عشراق نے داعش سے فرار ہونے کے بعد اپنے ریپسٹ کا سامنا کیا ہو۔ 2015 میں نئی زندگی کی تلاش میں جرمنی فرار ہونے کے بعد ایک دن شٹٹگرٹ کی ایک گلی میں ابوہمام نے ان کا راستہ روکا اور انہیں بتایا کہ وہ جانتا ہے کہ عشراق کہاں ٹھہری ہوئی ہیں۔

وہ جرمنی سے واپس عراق بھاگیں تاکہ ابوہمام کی پہنچ سے دور رہ سکیں۔ جنہیں عراق واپس آنے کے بعد عراقی سیکورٹی حکام کے سپرد کر دیا گیا۔

عراق کے العراقیہ ٹی وی پر نشر ہونے والے اس انٹرویو میں عشراق بیان کرتی ہیں کہ کیسے سنجار پر حملے کے بعد داعش نے یزیدی لڑکیوں کو اپنے خاندانوں سے الگ کر کے انہیں عراق اور شام میں موجود جنگجوؤں کو بیچ دیا۔

وہ انٹرویو لینے والے کو بتاتی ہیں کہ ’ہم بہت پریشان تھے اور نہیں جانتے تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ کیا ہمیں قتل کر دیا جائے گا یا نہیں؟ لیکن ہم ساتھ تھے تو اس لیے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ ہم ساتھ رہتے یا ساتھ مر جاتے لیکن انہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔‘

عشراق کے مطابق وہ تین چار سو یزیدی خواتین اور لڑکیاں تھیں جن کی عمریں نو سال یا اس سے زیادہ تھیں۔ جنہیں موصل لے جایا گیا تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ ان کی زیادہ تر بہنوں اور کزنز کو شام لے جایا گیا۔

عشراق کہتی ہیں ’ ابو ہمام نے مجھے منتخب کیا اور پھر میرے بالوں کو کھینچا۔ میں امید نہیں کرتی تھی کہ وہ میرا ریپ کریں گے کیوں کہ میں صرف 14 سال کی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمیں لوہے کی ہتھکڑی سے باندھ دیا اور ہمیں تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا۔ ان سب نے باری باری ہمارا ریپ کیا۔ ابو ہمام وعدہ کرتا رہا کہ وہ مجھے جانے دے گا لیکن پھر وہ دن میں تین تین بار میرا ریپ کرتا تھا اور تین چار بار مجھے پیٹا کرتا تھا۔ میں اس وقت ایک بچی تھی، مجھے کچھ علم نہیں تھا۔ جب وہ میرا ریپ کرنے کی کوشش کرتا تھا تو میں اسے دھکہ دے کر ہٹاتی تھی۔ کوئی ایک ایسا دن بھی نہیں گزرا ہو گا جب وہ مجھے تین چار بار مارتا نہ ہو۔‘

اگست 2014 میں داعش کے جنگجوؤں نے جب سنجار اور اس کے قریبی علاقوں پر حملہ کیا تو ہزاروں یزیدی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مردوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ یزیدی خواتین اور لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر بیچ دیا گیا۔

یہ انٹرویو عراق کی نیشنل انٹیلی جنس سروس نے ریکارڈ کیا تھا اور اسے 26 نومبر 2019 کو العراقیہ نیوز چینل پر نشر کیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا