جنوبی وزیرستان کی پہلی خاتون صحافی

محسود قبیلے کی لڑکی کا میڈیا میں آنا ایک ناممکن بات تھی۔ اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن میں اپنے نقاب کے ساتھ صحافت کرتی ہوں۔ وزیرستان کے لوگ مجھ سے اور میرے کام سے مطمئن ہیں: رضیہ محسود

پاکستان میں کسی بھی عورت کے لیے گھر سے باہر جانا اور نوکری کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اپنی مرضی کا کام کرنے کے لیے گول روٹیوں کے ساتھ ساتھ کئی پاپڑ بھی بیلنے پڑتے ہیں۔ شہروں میں شاید پھر بھی عورتوں کا کام کرنا عام ہو گیا ہو لیکن جنوبی وزیرستان جیسے قبائلی علاقے میں کسی عورت کے لیے فیلڈ میں جا کر کام کرنا اور وہ بھی صحافت جیسا کام، ایک انہونی بات ہے۔ لیکن اس انہونی کو ہونی کیا جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے تعلق رکھنے والی رضیہ محسود نے۔

رضیہ محسود جنوبی وزیرستان کی واحد خاتون صحافی ہیں۔ ابتدائی تعلیم تو انہوں نے وہیں سے حاصل کی، لیکن چونکہ وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں تھے، لہذا رضیہ ڈی آئی خان چلی گئیں جہاں انہوں نے گومل یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے رضیہ نے بتایا: ’جب وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوا تو وہاں کے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ لوگ ڈی آئی خان، پشاور اور اسلام آباد چلے گئے، لیکن وہاں پہنچ کر دیکھا کہ اُدھر کے رہائشی ان لوگوں کو شک کی نظر سے دیکھتے اور ان کو دہشت گرد سمجھتے تھے۔ کوئی ان کو کرائے کے لیے مکان دینے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رضیہ نے کہا کہ اس بات نے ان کے دل کو تکلیف پہنچائی۔ ان کو میڈیا سے بھی گلہ تھا کہ وزیرستان کی منفی عکاسی کی گئی، جس کی وجہ سے لوگوں کا رویہ وزیرستان کے عام لوگوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اپنے ارد گرد، اپنے لوگوں کی پریشانیاں اور دشواریاں دیکھ کر رضیہ کے اندر کچھ کرنے کا جوش پیدا ہوا۔

انہوں نے بتایا: ’بچپن میں مجھے وکیل بننے کا شوق تھا لیکن وہ پورا نہ ہو سکا۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ بھلے نوکری کرلیں لیکن یا تو وہ میڈیکل کے شعبے میں جائیں یا پھر ٹیچر بنیں۔ اس کے علاوہ عورتیں کچھ بھی کرنا چاہیں تو ان کو منع کیا جاتا ہے، لیکن مجھے ان شعبوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے جب مجھے صحافت کرنے کا موقع ملا تو میں نے وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔‘

رضیہ کے مطابق: ’محسود قبیلے کی لڑکی کا میڈیا میں آنا ایک ناممکن بات تھی۔ اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن میں اپنے نقاب کے ساتھ صحافت کرتی ہوں اور لوگوں کے مسائل پر بات کرتی ہوں۔ اس وجہ سے وزیرستان کے کئی لوگ مجھ سے اور میرے کام سے مطمئن ہیں۔ میں اپنی آواز اور اپنے کیمرے سے لوگوں کی دشواریاں دور کرنا چاہتی ہوں۔‘

رضیہ کی 2011 میں شادی ہوئی۔ ان کے شوہر کامران محسود بھی ایک صحافی ہیں۔ ان دونوں کے تین بچے ہیں۔ رضیہ کو اپنے شوہر اور سسرال کی جانب سے کافی سپورٹ ہے۔

اپنے کیریئر کے آغاز میں رضیہ نے ڈیولپمنٹ سیکٹر میں کام کیا۔ پھر 2017 میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک سٹیزن جرنلزم کی ورکشاپ رکھی جس میں رضیہ نے حصہ لیا۔

اس کے بعد رضیہ اور ان کے شوہر نے مل کر ویڈیوز بنانا شروع کیں۔ رضیہ نے بتایا کہ جب وہ فیلڈ میں ہوتی ہیں، تو ان کے سسرال والے ان کے بچوں کا دھیان رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مطمئن ہو کر رپورٹنگ کرپاتی ہیں۔ فیملی کی ذمہ داریاں نبھانا اور دیگر ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے رضیہ اپنے شوہر کو کریڈٹ دیتی ہیں۔

ان کے شوہر کامران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وزیرستان جیسے علاقے میں عورتوں کے مسائل پر کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں مردوں کی پہنچ نہیں، اس لیے میں نے رضیہ کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اس فیلڈ میں آگے آئیں اور وزیرستان کے لوگوں کے مسائل پر کام کریں اور عورتوں کی آواز بنیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں رضیہ کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں ہر قدم پر ان کے ساتھ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں تنگ ذہن لوگ ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر عورت گھر سے باہر نکلے گی اور میڈیا میں آئے گی تو وہ فحش ہوجائے گی اور بغاوت پر اتر آئے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھے رضیہ پر بہت فخر ہے۔ یہ اپنے تمام فرائض بخوبی نبھاتی ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے اور میں رضیہ کو بھی یہی نصیحت کرتا ہوں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان دونوں کے درمیان کسی سیاسی یا سماجی مسئلے کو لے کر تکرار ہوتی ہے؟ تو کامران نے بتایا: ’ظاہر ہے ہم دونوں صحافی ہیں تو اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں، لیکن جب ٹینشن زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ہم بریک لے لیتے ہیں۔ پھر جب ہم دونوں ٹھنڈے ہوجاتے ہیں تو مسئلے پر بات کرتے ہیں اور صلح کر لیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین