افغانستان کے انتخابی نتائج ایک بار پھر تنازع کا شکار

صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی کو واضح برتری حاصل ہے، مگر ان کے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

70 سالہ اشرف غنی ماہر بشریات، ماہر تعلیم اور ورلڈ بینک کے سابق ملازم ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں اتوار کو صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان کر دیا گیا، جس کے مطابق اشرف غنی کو واضح طور پر برتری حاصل ہے۔

تاہم ان کے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے فوری طور پر ان نتائج کو چیلنج کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

خانہ جنگی کے شکار ملک میں 28 ستمبر کو سخت سیکورٹی میں 18 امیدواروں کے درمیان صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔

کئی مہینوں کے سیاسی تناؤ کے بعد ’انڈپینڈنٹ الیکشن کمیشن‘ نے اتوار کو ابتدائی نتائج کا اعلان کیا، جس کے فوری بعد حزب اختلاف نے دھاندلی اور بدعنوانی کے الزام عائد کیے ہیں۔

کمیشن کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق اشرف غنی نے 50.64 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

اگر نتائج کے یہ اعداد و شمار برقرار رہتے ہیں تو یہ اشرف غنی کے لیے رن آف (دوسرے مرحلے کے لیے انتخابات) سے بچنے کے لیے کافی ہیں کیوں کہ عبد اللہ عبد اللہ محض 39.52 فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائیں ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق: ’حتمی نتائج کے اعلان سے قبل امیدواروں کے پاس شکایات درج کرانے کے لیے کچھ دن باقی ہیں۔ شاید چند ہفتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسے ہی نتائج کا اعلان ہوا اشرف غنی کے سب سے بڑے حریف عبداللہ عبداللہ کے دفتر سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ان نتائج کو چیلنچ کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا: ’ہم ایک بار پھر اپنے عوام، حامیوں، الیکشن کمیشن اور اپنے بین الاقوامی اتحادیوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری ٹیم اس جعلی الیکشن کے نتائج کو اس وقت تک قبول نہیں کرے گی جب تک کہ ہمارے جائز مطالبات پر توجہ نہیں دی جاتی۔‘

دوسری جانب اشرف غنی کے دفتر نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم انہوں نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ اتوار کی شام کو قوم سے خطاب کریں گے۔

2001 میں امریکی حملے کے بعد یہ افغانستان میں چوتھے صدارتی انتخابات تھے، جس میں اشرف غنی کو ایک بار پھر اپنے سب سے بڑے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر برتری حاصل ہو گئی ہے اور وہ دوسری بار حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔

اشرف غنی کون ہیں؟

70 سالہ غنی ماہر بشریات، ماہر تعلیم اور ورلڈ بینک کے سابق ملازم ہیں، جو 1977 میں افغانستان میں خراب حالات کے باعث باہر چلے گئے اور تقریباً دو دہائیوں بعد واپس آئے۔

انہوں نے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران متعدد امریکی یونیورسٹیوں میں تدریس کا کام جاری رکھا۔

2001 کے آخر میں جب امریکی حملے کے بعد طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو اشرف غنی اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر کی حیثیت سے واپس کابل پہنچے اور عبوری حکومت کا حصہ بنے۔

انہوں نے 2002 سے 2004 تک صدر حامد کرزئی کے دورِ حکومت میں بطور وزیر خزانہ خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران انہوں نے بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے خلاف مہم چلائی۔

اپنی توانائی اور عزم کے لے مشہور اشرف غنی نے ملک میں نئی کرنسی متعارف کروائی، ٹیکس کا نظام قائم کیا، دولت مند افغانوں کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی اور غیر ملکی ڈونرز کو جنگ سے تباہ حال ملک کی امداد کے لیے راضی کیا۔

پشتون نسل سے تعلق رکھنے والے اشرف غنی 2014 کے صدارتی انتخابات میں اپنے حریف عبد اللہ عبد اللہ کے 45 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں محض 31.6 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود انتخابات کو دوسرے مرحلے تک لے گئے جو ان کی توقعات سے بہتر کارکردگی سمجھی گئی۔

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دھاندلی کے شدید الزامات لگائے گئے۔ تاہم اشرف غنی 55 فیصد ووٹوں کے ساتھ فاتح بن کر سامنے آئے لیکن وہ اب بھی حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔

اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے اقتدار میں شراکت داری کا ایک عجیب و غریب معاہدہ طے پایا، جس کے نتیجے میں بالآخرعبد اللہ عبداللہ کے ساتھ ایک ’قومی اتحادی حکومت‘ تشکیل دی گئی۔

اپنے پانچ سالوں میں اشرف غنی نے حکومتی بدعنوانی کے خلاف بہت کم پیش قدمی کی، جبکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات سے غنی حکومت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

اشرف غنی کی شادی رولا سے ہوئی ہے جن سے ان کی ملاقات لبنان کی امریکین یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ہوئی تھی۔ اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا