ریشمی دھاگوں کے الجھے گچھے

اگر تو یہ پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا ہی لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے تو خان صاحب اس خطرناک جھولے پہ بیٹھ کر ہمارا خون تو خشک ہو چکا۔ اگر یہ یوٹرن کا پہیہ آپ گھماتے نہیں بس گھوم جاتا تو ملک کے بڑوں کو تشویش ہو جانی چاہیے۔

الجھے کھیل سلجھانے اور سلجھے معاملے الجھانے میں انہیں مزہ آنے لگا ہے(اے ایف پی)

ابھی دو دن پہلے کی بات ہے، ایک سوشل میڈیا ادارے نے خان صاحب کی ورزشی سوٹ بوٹ میں تین تصاویر شائع کیں۔ واقعی اس عمر میں صحت اور ہینڈسم ہونے کی کوئی تعریف اگر ہو سکتی ہے تو وہ اپنے خان صاحب ہیں۔

لوگوں کو آج کل فیض و جالب کے انقلابی نغمے بڑی زور سے یاد آئے ہوئے ہیں۔ میں ہینڈسم کی تصاویر دیکھ کر گنگنائی’اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے۔‘

کبھی کبھی لگتا ہے کہ خان صاحب جیت جیت کر اکتا گئے تھے تو انہوں نے ہار کا مزہ چکھنے اور دوسروں کو چکھانے کی ٹھانی۔ انہیں اپنے مرضی کے ایمپائر کی بند آنکھیں دلچسپ نہ لگیں تو ایمپائر کو اس کی نوکری کی مدت کے جھمیلے میں الجھا دیا کیونکہ الجھے کھیل سلجھانے اور سلجھے معاملے الجھانے میں انہیں مزہ آنے لگا ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے گیم میں رن ریٹ بڑھنے لگے تو انہیں بوریت ہونے لگتی ہے سو وہ اپنی ہی کوئی وکٹ گرا دیتے ہیں۔ وہ چمن سے کسی پھول کو توڑ کر اپنی جیب میں سجاتے ہیں جوں ہی وہ پھول جچنے لگے اسے نوچ کر پھینک دیتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں ساری دنیا کو ہاتھ میں تسبیح لے کر بتاتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ جوہری جنگ میں چنگاری ثابت ہو گا۔ پھر خود ہی وہ چنگاری پر بیزاری کی اوس ڈال دیتے ہیں۔

خان صاحب نے بھارتی وزیر اعظم مودی کی فاشسٹ حکومت کو بےنقاب کیا، انہیں ہٹلر کے چیلے ہونے کا خطاب دیا۔ آج عمران خان کی کہی بات آگے بڑھ رہی ہے، عالمی سطح پر ان کا دیا ہوا نظریہ مانا جا رہا ہے۔ لکھنے والے بھی اب مودی کا ہٹلر سے موازنہ کر رہے ہیں۔ بھارتی دانشور الجھ گئے ہیں، عوام بھی حکومت سے بھڑنے لگی ہے۔

یہ بھارت کی مسلم مخالف پالیسیوں کو آڑھے ہاتھوں لینے کا بہترین وقت ہے لیکن ہمارے کپتان چھکا مار کر ساری دنیا کو گیند کے تعاقب میں لگا کر خود ذرا پرے بیٹھے ہیں۔

وہ آپ نے بڑی بوڑھیوں سے محاورہ تو سنا ہوگا ’اک سر سہلائے دوسرا بھیجا کھائے۔‘ یہی ہماری قومی سیاسی پالیسی لگ رہی ہے۔ یقین نہ آئے تو پرویز مشرف کا مقدمہ، سزا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی بھدی پالیسی دیکھ لیں۔ یہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔

جس انداز میں خان صاحب کی حکومت نے ایکسٹنشن کے معاملے کو فوج کے لیے ٹیڑھی کھیر بنایا۔ اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ آپ قوم کے وسیع تر مفاد میں معاملات الجھانا جائز و ضروری سمجھتے ہیں۔ اور جو عدالت نے ایکسٹیشن کی سلجھن پیش کر رکھی ہے، آپ لکھ رکھیں یہ اسے بھی الجھانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کبھی موٹی رسی کو الجھتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ریشمی دھاگے ہی الجھا کرتے ہیں جنہیں دانتوں سے کھولو تو سلجھتے نہیں ٹوٹ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسا ہی کچھ کوالالمپور میں مسلمان ممالک کی کانفرنس کے معاملے میں کیا گیا۔ خان صاحب اپنی شعلہ بیانی سے پہلے مسلمان ملکوں کو تین تیرہ ہونے کے طعنے دیتے رہے جب بکھرے مسلمان رہنما ہاتھ ملانے کے لیے ان کی طرف دیکھنے لگے تو وہ ہاتھ جھٹک کر پیٹھ پھیر گئے۔ خان صاحب کی ٹیم نے یہ ڈور ایسے الجھائی کہ ایک عالمی فورم پر سعودی عرب کو کھری کھری سننا پڑ گئی۔ امت کی تقسیم میں سعودی عرب کے کردار پر رہنما تکلف میں بھی نہیں بولتے تھے۔ اب خان صاحب کی الجھاو پالیسی کی بدولت انہیں بھی زبانیں مل گئیں ہیں۔ بائی گاڈ محمد بن سلمان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کا یہ ڈرائیور اناڑی ہے یا گاڑی میں خرابی ہے۔

جس خوبصورتی سے خان صاحب کی ٹیم نے ملک ریاض کے لندن کیس اور قومی خزانے میں آنے والی رقم کو متنازعہ بنایا اس کی مثال پچھلی کسی حکومت میں نہیں ملتی۔ یہ وہی جالی دار چلمن تھا کہ جس کے اس پار بیٹھی حسن کی دیوی کو اپنے آپ دکھانا بھی مقصود تھا اور بیچ میں یہ پردہ لگا رہنے پہ بھی اصرار تھا۔ یہ  ملک صاحب کے ایسے دوست ہوئے کہ جن سے کھلے دشمن بھلے۔

میری مانیں تو پبلک، اداروں، میڈیا اور سیاسی شاطروں کو الجھانے کی ایک باقاعدہ منسٹری بنا دی جائے۔ ویسے تو یہ کام بحسن خوبی ہو ہی رہا ہے۔ دن بھر فیاض الحسن چوہان جس پر تبرا بھیج رہے ہوتے ہیں باجی فردوس شام کو کسی اور لائن پر ہوتی ہیں۔ اٹارنی جنرل عدالت کو کچھ اور بتاتے ہیں تو قانون کے وزیر فروغ نسیم کی رائے الگ ہوتی ہے۔ شاہ محمود صاحب کی سوچ کے پرندے کہیں اور اڑتے ہیں اور وزیر اعظم کے ماضی میں دیئے گئے بیانات ان کے حالیہ فیصلوں کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔

اگر تو یہ پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا ہی لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے تو خان صاحب اس خطرناک جھولے پہ بیٹھ کر ہمارا خون تو خشک ہو چکا۔ اگر یہ یوٹرن کا پہیہ آپ گھماتے نہیں بس گھوم جاتا تو ملک کے بڑوں کو تشویش ہو جانی چاہیے۔ اور اگر یہ الجھن سلجھن کا کھیل جان بوجھ کر جاری ہے اور یہی خان صاحب کا انداز سیاست ہے تو یہ ادائے بےنیازی تجھے بےوفا مبارک۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ