بنگلہ دیش: علما کے احتجاج کے بعد ماں کا دودھ عطیہ کرنے کا منصوبہ ختم

بنگلہ دش کی اعلیٰ مذہبی قیادت نے مِلک بینک کے حوالے سے تاحال کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا ہے تاہم اس سکیم کو ناقدین کے اعتراض کے بعد بند کر دیا گیا جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرنا غیر اسلامی ہو گا۔

اگست 2018 کی اس تصویر میں بنگلہ دیش میں ایک  شیر خوارروہنگیا مسلم پناہ گزین بچہ  اور اس کی ماں ۔ بنگلہ دیش میں کم نشونما پانے والے اور غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے (اے ایف پی)

مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد بنگلہ دیش میں ایک ہسپتال نے بچوں کو عطیہ کیے گئے بریسٹ مِلک (ماں کا دودھ) پلانے کے منصوبے سے دستبرداری اختیار کر لی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سکیم کے تحت 500 یتیم بچوں اور کام کے لیے گھروں سے باہر جانے والی خواتین کے شیرخواروں کو عطیہ کیا گیا ماں کا دودھ پلایا جانا تھا۔ واضح رہے کہ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں کم نشونما پانے والے اور غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

بنگلہ دش کی اعلیٰ مذہبی قیادت نے مِلک بینک کے حوالے سے تاحال کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا ہے تاہم اس سکیم کو ناقدین کے اعتراض کے بعد بند کر دیا گیا جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرنا غیر اسلامی ہو گا کیونکہ ایک ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی اگر آگے جا کر آپس میں شادی ہو گئی تو وہ شریعہ قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔

بااثر مذہبی سیاسی جماعت اسلامی اندولن بنگلہ دیش کے ترجمان غازی عطا الرحمن نے کہا: ’اس سے ان کی نسل اور شادی غیر قانونی ہوجائے گی۔‘

ایک اور مذہبی رہنما احمد عبد القیوم نے کہا کہ شریعت قانون نے مِلک بینک جیسے اقدامات کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا: ’یہ اسلام کے خلاف ہوگا۔‘

احمد عبد القیوم نے مشورہ دیا کہ حکام کو پہلے ہی اس ’انتہائی حساس مسئلے پر علما سے رائے لے لینی چاہیے تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ممتاز عالم دین فرید الدین مسعود نے مفاہمت پر زور دیتے ہوئے کہا حکام کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ پاکستان، ایران، عراق اور ملائیشیا جیسی مسلم اکثریتی قوموں نے انسانی دودھ کے بینکوں کا قیام کیا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر حل تلاش کرنا چاہیے۔‘

ڈھاکہ میں مِلک بینک کا رواں ماہ آغاز ہونا تھا لیکن منصوبے کے کوآرڈینیٹر مجیب الرحمن نے کہا کہ وسیع پیمانے پر تنقید کی وجہ سے اسے غیر معینہ مدت کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال نے اس سکیم کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے۔

انہوں نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا: ’ہم دودھ الگ الگ جمع کرتے ہیں اور عطیہ کرنے والی ماؤں (ڈونر) کی شناخت کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔‘

بچوں کے ماہرین نے ماؤں کا دودھ عطیہ کرنے کی سکیم کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بچوں کی زندگیاں بچانے اور ان کی نشوونما میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈھاکہ میں بچوں کے ایک ڈاکٹر محبوب الحق نے کہا: ’یتیم اور شدید بیمار بچوں کے لیے انسانی دودھ انتہائی ضروری ہیں، خاص طور پر ان بچوں کی جان بچانے کے لیے جنہیں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں علاج کے لیے رکھا جاتا ہے اور جن کی مائیں انہیں اپنا دودھ پلانے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’مغرب کے بڑے ہسپتالوں میں مِلک بینک قائم ہیں۔ ہمیں بچوں کے لیے اپنے ہسپتالوں میں ایسے مزید بینک قائم کرنے چاہییں۔‘
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا