ٹریلر دیکھنے کے دوران سوچا فلم کے آنے کا انتظار کرلیتے ہیں پھر ہی کچھ کہنا مناسب ہوگا۔ لیکن ٹریلر ہی بین ہوگیا تو میں یہاں کہوں گی ٹریلر میں ایسی چیزیں دکھا دی گئیں جن کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ایک فلم بین ہونے کی حیثیت سے کہوں گی کہ حساس موضوع پر فلمیں بننی چاہیے اور حساس موضوعات پر فلم بنانا بھی کسی کسی کو ہی آتا ہے لیکن جناب سرمد کھوسٹ نے اگر ہمارے معاشرے کے ’جعلی مولویوں‘ کو پردہ سکرین پر دکھانے کا کام اپنے سر لیا ہی تھا تو انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ صرف ’جعلی مولوی‘ کو ہی ٹارگٹ بنایا جائے نہ کہ اس جعلی مولوی کے ماتھے پر مقدس نشانیاں سجا کر اسے اجتماع میں بیٹھا دکھایا جائے اور ایک مسلمانوں کی ایک خاص جماعت کو ٹارگٹ بنایا جائے۔
بقول سرمد کھوسٹ انہوں نے کسی مذہبی جماعت کو ٹارگٹ نہیں بنایا۔ لیکن انہیں اس بات کا یقیناً علم ہوگا کہ کون سی چیزیں کس مذہبی جماعت کو ظاہر کرتی ہیں۔
یہ سب دکھانے سے دنیا کو اور فلم بین کو صرف اسی جماعت کے مولوی برے ہونے کا تاثر جائے گا جب کہ کالی بھیڑیں ہر جماعت میں موجود ہیں۔ تو یہ کام اس مخصوص جماعت سے متعلق نشانیاں دکھائے بغیر بھی بخوبی ہوسکتا تھا۔
دوسری بات یہ کہ اہانت مذہب انتہائی حساس موضوع ہے۔ بالخصوص مولویوں اور لنڈے کے لبرلز کا ہمیشہ سے فیورٹ رہا ہے۔ اسی وجہ سے فلم اس بحث کا موضوع بننے جا رہی تھی اور اس موضوع کی وجہ سے میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ فلم کا اپنا موضوع کہیں گم ہوجاتا۔
اس موضوع پر فضول بحث کی وجہ سے پہلے ہی کئی قتل ہوچکے ہیں اور کسی کو علم نہیں تھا کہ اب کی بار یہ موضوع کس کی جان لیتا۔ بقول سرمد کھوسٹ انہیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
یہ فلم جن مولوی صاحب کی بائیوگرافی ہے، اگر ان کا تعلق پنجاب کے کسی دیہی علاقے سے تھا تو اسے ویسا ہی دکھایا جاتا اور صرف اسی پہ فوکس کیا جاتا۔ ٹریلر بھی ویسا ہی ریلیز کیا جاتا لیکن اس سے جڑی اس قدر حساس چیزیں دکھا کر لگتا ہے سرمد صاحب بھی چیک کرنا چاہتے تھے آخر پاکستانیوں کا ری ایکشن کیا ہوگا! اور اب وہ مولوی طبقے سے نفرت کرنے والے لوگوں کی ہمدردیاں اور مولویوں کی نفرتیں سمیٹ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری بات یہ کہ اس موضوع کے بارے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ ہم پاکستانی یا پاکستانی سنسر بورڈ انتہائی تنگ نظر ثابت ہورہے ہوں تو جناب یہ صرف پاکستان کا ایشو نہیں، بھارت میں فلم پدماوت پر کس قدر ہنگامے ہوئے تھے؟ جب کہ وہ اصل کہانی نہیں تھی۔ پدماوت کو دکھایا بھی اچھا گیا تھا۔ وہ صرف ایک کردار تھا علاؤالدین خلجی کا اور تاریخ کو کیسا مسخ کیا گیا اسے لوگ بھولے نہیں۔
ڈارک ٹاور ناول میں ہیرو سفید فام تھا لیکن فلم میں سیاہ فام ادریس البا کے بارے میں انگریزوں نے کس قدر تنگ نظری دکھائی یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تو یہ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ یہ تمام فلم انڈسٹریز کا مسئلہ ہے۔ تو اپنے ملک کے لوگوں کو برا کہنے سے پہلے نظر اور علم کے گھوڑے دوڑائیے۔
ہالی وڈ، بالی وڈ کو بھی ایک وقت لگا ہے ایسے حساس موضوعات پردہ سکرین پر لانے میں، بالی وڈ تو اب بھی آئے روز ایسے مسائل کا شکار ہوتا رہتا ہے۔
ہماری فلم انڈسٹری ابھی چھوٹی ہے۔ ایسے معاملے میں سرمد کھوسٹ نے پہل تو کی ہے مگر انہیں بھی اس طرح کے حساس موضوعات کے بارے میں اپنے لوگوں کا رد عمل سمجھنے میں وقت لگے گا۔
کوئی بھی فلم انڈسٹری اپنے لوگوں کے آزاد خیال ہونے سے پہلے اس طرح کے مسائل کا شکار رہے گی اور ہماری عوام اور فلم انڈسٹری کو ایسے موضوعات کی فلمیں قبول کرنے میں کافی وقت لگے گا۔