افغان مذاکرات کا جاری رہنا ہی اب تک کی اہم پیش رفت ہے

باقی معاملات بھی اہم ہیں لیکن اگر جنگ بندی پر اتفاق اگر ہو جاتا ہے تو عام افغان کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہی ہوگا۔

امریکی مذاکراتی ٹیم کے سپہ سالار زلمے خلیل زاد۔ 

ایک زمانہ تھا جب جنیوا مذاکرات کے دور در دور ہوا کرتے تھے۔ افغانستان میں قیام امن کی امیدیں ان سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی ان پر نظر رکھتا تھا۔ اس وقت بات چیت کے فریق اور تھے آج کوئی اور ہیں۔ اس وقت کے مجاہدین ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھے جس کی وجہ سے میدان جنگ بھی گرم رہتا تھا۔ اب دوحا، قطر میں طالبان مذاکرات میں بھی شامل ہیں اور لڑ مر بھی رہے ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات ابھی کسی حتمی نہج تک نہیں پہنچے ہیں لیکن ہر کسی کو امید سے جڑے رہنے کی تلقین دے رہے ہیں۔

اس پرامیدی پر تو جیسے امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک دوسری جنگ چل رہی ہے۔ امریکی میڈیا ماضی میں قومی مفاد میں جس قسم کی خبریں چلاتا تھا آج بھی اسی کے اشارے مل رہے ہیں۔ مذاکرات کو وہاں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو میڈیا بھی اس امید کو شاید بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ تین سے پانچ سال میں امریکی افواج کے انخلا پر بات تقریبا طے ہے۔ تاہم طالبان مغربی میڈیا کی توڑ مروڑ کو کیسے خاموشی سے برداشت کر لیں۔

افغان طالبان نے فورا وضاحتی بیان داغا کہ اگرچہ دوحا میں مذاکرات کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور چونکہ موضوع بہت اہم اور حساس ہے لہذا محتاط طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ماہ جنوری میں ہونے والے مذاکرات میں ’استعماری افواج‘ کے انخلا  اور کسی کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال نہ کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس بار (25 فروری سے) مذاکرات میں انہی دو موضوعات کی تفصیل پر گفتگو جاری ہے اور تین یا پانچ سال کی کوئی مدت طے نہیں ہوئی ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’اس کے علاوہ دیگر افواہوں اور اندازوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘

لیکن مغربی میڈیا کے صحافیوں کی مثبت پہلو والی رپوٹنگ اس بیان سے بھی بند نہ ہوئی۔ ایک اور طالبان کا سخت بیان سامنے آیا کہ ’افغان عوام امن و امان کی جانب بڑھ رہے ہیں،اسی اندازے سے امن دشمنوں کے منفی پروپیگنڈے بھی زیادہ ہو رہے ہیں جو جاری عمل کے حوالے سے حقیقت سے بعید افواہیں پھیلا رہے ہیں۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ مذاکرات کے جاری اجلاسوں میں عبوری حکومت سے متعلق نہ کوئی بات ہوئی اور نہ ہی انتخاب کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور اب تک امریکہ نے بھی ایسی کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے کہ وہ چار یا پانچ سال تک مزید افغانستان میں رہیں گے۔

امریکی میڈیا کی افواہوں اور خواہشات کے برعکس امریکی اہلکار ان مذاکرات کے بارے میں عوامی سطح پر کیا کہہ رہے ہیں اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ امریکی مذاکراتی ٹیم کے سپہ سالار زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والی بات چیت سست روی مگر مستحکم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین چار اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھیں گے جن میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کا تعاون، جنگ بندی اور افغان حکومت سمیت تمام دھڑوں کی بات چیت میں شمولیت شامل ہیں۔

باقی معاملات بھی اہم ہیں لیکن اگر جنگ بندی پر اتفاق اگر ہو جاتا ہے تو عام افغان کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہی ہوگا۔ جنیوا معاہدوں کے بعد روسی افواج تو افغانستان سے چلی گئیں لیکن اس ملک میں امن نہ آیا۔ اب تازہ مذاکرات کے نتیجے میں  کوئی آئے یا جائے اور کس وقت جائے اس بارے میں انہوں کوئی زیادہ تشویش نہیں ہے۔ وہ تو ایک طویل جنگ بندی کی امید کر رہے ہیں جو قطر انہیں مہیا کر رہا ہے۔ فریقین کی مذاکرات میں سنجیدگی اچھا شگون ہے۔ طالبان مذاکراتی وفد کو تازہ دم کمک رہنما ملا برادر کی شمولیت سے ملی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان تاریخی مذاکرات کی کوکھ سے کوئی تاریخی معاہدہ بھی جنم لیتا ہے یا نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ