پلوامہ حملہ:بارودی مواد کہاں سے آیا، ایک سال بعد بھی پتہ نہ چل سکا

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ایجنسی آج تک یہ معلوم نہ کر سکی کہ حملے میں استعمال شدہ بارودی مواد کا ذریعہ کیا تھا اور حملے کی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔

14 فروری، 2019 کو پلوامہ کے قریب جموں سری نگر شاہراہ پر بھارتی فورسز کی بس پر حملے میں 40 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے (اے ایف پی)

پلوامہ حملے کو پورا ایک سال گزرنے کے باوجود بھارت اب تک کار بم دھماکے میں استعمال ہونے والے اعلیٰ درجے کے بارودی مواد کا ذریعہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

14 فروری، 2019 کو پلوامہ کے قریب جموں سری نگر شاہراہ پر ایک کار بم کے ذریعے بھارتی فورسز کی بس کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 40 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

حملے کے فوراً بعد بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا، لیکن پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا۔

حملے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے نئی دہلی کی جانب سے قابلِ کارروائی معلومات شیئر کرنے پر تحقیقات میں معاونت کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن بھارت نے ایسی کوئی معلومات شیئر نہیں کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ میں ایک سینیئر سرکاری افسر کے حوالے سے بتایا گیا کہ حملے میں استعمال ہونے والا بارود عام نہیں تھا بلکہ جنگوں میں استعمال ہونے والا مخصوص مواد تھا جو صرف فوجی اسلحہ ڈپوز میں موجود ہوتا ہے۔

نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ایک افسر نے بتایا کہ کار میں بھرا جانے والا بارود امونیم نائٹریٹ، نائٹرو گلیسرین اور آر ڈی ایکس پر مشتمل تھا جبکہ فرانسک رپورٹ کے مطابق حملے میں تقریباً 25 کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود حملے کی تحقیقات آگے نہیں بڑھیں اور تمام مرکزی ملزموں کے مارے جانے کی وجہ سے این آئی اے چارج شیٹ فائل نہیں کر سکی۔

ایک سینیئر سرکاری افسر نے بتایا کہ حملے میں استعمال ہونے والی کار کا ’انجن بلاک‘ تلاش نہیں کیا جا سکا کیونکہ ممکن ہے کہ انجن بلاک دھماکے کی شدت سے قریب بہنے والے دریا میں جا گرا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی کئی سوال حل طلب ہیں لیکن مرکزی ملزموں کے مارے جانے کی وجہ سے ان کے جواب ملنا مشکل ہیں۔

دی ہندو نے ایک اور سرکاری افسر کے حوالے سے بتایا کہ حملے کے منصوبہ سازوں تک پہنچنا مشکل ہے اور چونکہ تمام ملزم مارے جا چکے ہیں لہٰذا جمع شدہ تکنیکی شواہد کی تصدیق ممکن نہیں۔’مثلاً یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کار کے ڈرائیور نے بارودی مواد کہاں سے حاصل کیا۔‘

این آئی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ تباہ شدہ کار سے حملہ آور کے ڈی این اے نمونے حاصل کر لیے گئے تھے جو بعد ازاں اس کے والد سے میچ کر گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر جائے وقوعہ سے نہ پھٹنے والے بارودی مواد کے کچھ نمونے مل جاتے تو اس کے ذریعے (سورس) کا باآسانی پتہ چلایا جا سکتا تھا لیکن پلوامہ میں ہمیں ایسا کوئی کار آمد نمونہ نہیں ملا۔

جون میں وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے سینیٹ میں ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ پلوامہ حملہ ’انٹیلیجنس کی ناکامی‘ نہیں اور این آئی اے کی تحقیقات کے ذریعے ’سازش کرنے والوں، خود کش حملہ آور اور گاڑی فراہم کرنے والے کا پتہ چل چکا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا