گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دیں: سپیکر فدا ناشاد

گلگت بلتستان پانچویں صوبے کے طور پر پاکستان میں ضم ہونا چاہتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر سے متعلق مقدمہ متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر پاکستان میں اس کی مخالفت پائی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام ایک خطہ ہے۔ ماضی میں شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جانے والا گلگت بلتستان کا خطہ، 1947 سے بھارت اور پاکستان کے مابین تنازعہ کا موضوع رہا۔ کچھ عرصے سے گلگت بلتستان کے بعض حصوں پر چین اور بھارت کے درمیان بھی تنازع چل رہا ہے۔

گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 73 ہزار مربع کلومیٹر (28 ہزار مربع میل) سے زیادہ ہے۔ 2015 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی لگ بھگ 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

گلگت۔بلتستان کے جنوب میں پاکستان کا زیر انتظام کشمیر، مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا، شمال میں افغانستان کی واخان راہداری، مشرق اور شمال مشرق میں چین کا سنکیانگ خطہ اور جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ واقع ہیں۔

دولاکھ کی آبادی سے زیادہ کا گلگت شہر اس خطے کا دارالحکومت ہے۔ گلگت بلتستان انتہائی پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں 8000 میٹر (کے ٹو اور نانگا پربت سمیت) کی اونچائی کی پانچ اور 7000 میٹر کی 50 سے زیادہ چوٹیاں موجود ہیں۔

قطبی خطوں سے باہر دنیا کے تین طویل ترین گلیشیئر بھی اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس خطے کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

انتظامی طور پر گلگت بلتستان کو تین ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں بلتستان، گلگت اور دیامیر شامل ہیں۔ بلتستان اور گلگت چار، چار اور دیامیر دو اضلاع پر مشتمل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلتستان ڈویژن میں شامل اضلاع سکردو ، شیگر ، کھرمنگ اور گھانچے ہیں جبکہ گلگت ڈویژن گلگت، غیزر، ہنزہ اور نگر نامی اضلاع پر مشتمل ہے۔ اسی طرح دیامیر ڈویژن کے دو اضلاع میں دیامیر اور استور شامل ہیں۔ 

خطے کی معیشت بنیادی طور پر تجارت کے روایتی راستے شاہراہ ریشم پر مبنی ہے۔ چین ٹریڈ آرگنائزیشن فورم نے علاقے کے لوگوں کو اپنے چینی ہمسایہ سنکیانگ سے فعال طور پر سرمایہ کاری کرنے اور جدید تجارت کے بارے میں جاننے کی راہ پر گامزن کیا۔

بعد میں چیمبر آف کامرس کا قیام اور سُست ڈرائی پورٹ (گوجال ہنزہ میں واقع) سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ معیشت کا انحصار زراعت اور سیاحت پر ہے۔

یہاں کی زرعی مصنوعات میں گندم، مکئی، جو اور سیب اور خوبانی جیسے پھل ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی دلچسپی کے کئی مقامات اس خطے میں موجود ہیں۔ ٹریکنگ اور کوہ پیمائی اس سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ 

ستمبر 2009 کے شروع میں پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ گلگت بلتستان میں توانائی کے ایک بڑے منصوبے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے، جس میں ضلع استور میں بونجی میں 7،000 میگاواٹ ڈیم کی تعمیر بھی شامل ہے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد گلگت بلتستان میں فرنٹئیر کرائمز ریگولیشنز کا قانون نافذ رہا۔ تاہم 1970 میں  اسے شمالی علاقہ جات کے نام سے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا دیا گیا اور اس میں سابق گلگت ایجنسی، بلتستان ضلع اور متعدد سابقہ ​​ریاستیں بشمول ہنزہ اور نگر شامل کی گئیں۔

2009 میں اس کو محدود خود مختاری ملی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے دستخط کردہ خود گورننس آرڈر کے ذریعے اس کا نام گلگت بلتستان رکھ دیا گیا۔

گلگت بلتستان کی عوام ایک علیحدہ پانچویں صوبے کی حیثیت سے پاکستان میں ضم ہونا چاہتی ہے اور کشمیر کے ساتھ انضمام کی مخالفت کرتی ہے۔

پاکستان میں اس مطالبے کی مخالفت پائی جاتی ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے پاکستان کا حصہ بننے سے اسلام آباد کا مسئلہ کشمیر سے متعلق مقدمہ متاثر ہو سکتا ہے۔

گلگت بلتستان میں تقریباً ایک درجن علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں شینا اور بلتی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان