سندھ پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مطابق کراچی میں کچھ عرصے کے دوران 13 افراد کو فرقہ واریت کے تحت قتل کرنے اور 11 افراد کو زخمی کرنے جیسے واقعات میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔
سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آصف اعجاز شیخ نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ گرفتار ملزمان وقار عباس اور حسین اکبر کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم زینبیون بریگیڈ سے ہے۔
سی ٹی ڈی آفس میں بات کرتے ہوئے آصف اعجاز شیخ نے کہا شہر میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا تھا۔
’قتل کے واقعات بظاہر ڈکیتی کے دوران مزاحمت کے لگ رہے تھے۔ جانچ کی تو معلوم ہوا کہ کراچی میں ایک مذہبی جماعت کے کارکنان کو ان کے فرقے کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا گیا۔‘
آصف اعجاز شیخ کے مطابق: ’گرفتار ملزمان ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جنہیں بیرون ملک میں موجود ان کا ماسٹر مائنڈ سید حسین موسوی عرف مسلم چلاتا ہے۔ یہ ماسٹر مائنڈ اس نیٹ ورک کو ٹارگٹ کلنگ کی ہدایت دینے کے ساتھ فنڈنگ اور دیگر سہولت کاری فراہم کرتا ہے۔
’ہمیں تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے اس نیٹ ورک کے دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ میں 21 شدت پسند ہیں، جو ماسٹر مائنڈ کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کے لیے ملنے والے افراد کی مکمل ریکی کرکے تمام تفصیلات اس کو بھیجتے ہیں اور ماسٹر مائنڈ چار ارکان پر مشتمل ٹارگٹ کلنگ کرنے والے گروپ کو تصاویر اور دیگر معلومات بھیجتا ہے۔‘
آصف اعجاز شیخ کے مطابق گرفتار ملزمان سے اسلحہ، موٹر سائیکل اور ریکی لسٹ برآمد ہوئی۔ گرفتار ملزمان نے ٹارگٹ کلنگ کے 15 سے زائد افراد کی ریکی مکمل کرکے تفصیل اپنے ماسٹر مائنڈ کو بھیجی تھی۔
’ملزمان نے دوران تفتیش 13 افراد کو قتل اور 11 کو زخمی کرنے کا اعتراف کیا ہے، ملزمان کا تعلق گلگت سے ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ یہ دونوں ملزمان وقار عباس اور حسین اکبر مقامی پولیس کے ہاتھوں ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’معلومات ملنے پر ہم نے قانونی تقاضے پورے کر کے ملزم کو جیل سے تفتیش کے لیے حاصل کیا اور تفتیش کے دوران یہ تمام انکشافات ہوئے۔
’دوران تفتیش ملزمان کی نشاندہی پر ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد کیا گیا۔‘
شام میں 2000 میں بننے والی بشار الاسد کی حکومت کے خلاف 2011 میں بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والا امن احتجاج جب کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا تو کئی ممالک کی شدت پسند تنظیمیں جنگ میں حصہ لینے شام پہنچی۔
2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینب کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد حفاطت کے لیے پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا تاکہ وہ شام جا کر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔
زینبیون بریگیڈ کے علاوہ بی بی زینب کے روضے کی حفاطت کے لیے ایران میں مقیم افغان تارکین وطن کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا تھا۔
زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون بریگیڈ اہلِ تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ملیشیا گروہ ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ شام میں لڑنی والی مختلف شدت پسند تنظیمیں بمشول القاعدہ سے منسلک شدت پسند تنظیم داعش کمزور ہو کر شام سے نکلنا شروع ہوئیں تو پاکستان سے شام جانے والے زینبیون بریگیڈ کے افراد وطن واپس آنا شروع ہو گئے۔
آصف اعجاز شیخ کے مطابق اس وقت بھی زینبیون بریگیڈ کے شدت پسند کراچی سمیت صوبے بھر میں موجود ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ ’یہ بتانا مشکل ہے کہ پاکستان سے شام جانے والی زینبیون بریگیڈ کے تمام شدت پسند واپس آگئے ہیں یا ابھی تک شام میں موجود ہیں۔‘