سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر جمعرات کو سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اڈیالہ جیل سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے لیکن انہیں بولنے کا موقع نہ ملا اور صرف حکومتی وکیل کے دلائل جاری رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے ان اپیلوں پر سماعت کی۔ دیگر ججوں میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
جمعرات کو 11 بجکر 40 منٹ پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سکرین پر کچھ نظر نہیں آ رہا، جس کے بعد کیمرہ لنک آن کر دیا گیا۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے جبکہ عمران خان خاموشی سے کارروائی سنتے رہے۔
آج کی سماعت سپریم کورٹ نے براہ راست نشر نہیں کی تھی تاہم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی ایک تصویر انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگی جو بظاہر کمرہ عدالت میں لی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایکس پر پوسٹ کی گئی تصویر میں اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک پر عمران خان آسمانی رنگ کی پولو شرٹ پہنے کرسی پر براجمان نظر آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت سے عمران خان کی تصویر لیک ہونے پر عدالتی عملے اور اہلکاروں سے پولیس نے پوچھ گچھ کی اور عدالتی عملے کو باری باری کمرہ عدالت سے باہر بلا کر اس بارے میں پوچھا گیا۔
تصویر نشر ہونے کے بعد کچھ دیر تک کورٹ روم کی سکرینوں سے عمران خان کو غائب کر دیا گیا، کچھ دیر بعد دوبارہ ان کے کیمرے کو آن کیا گیا۔
سکرینوں سے عمران خان کے غائب ہونے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے آئی ٹی عملے کو اشارہ کیا، جس کے بعد عمران خان کی سکرین دوبارہ آن کی گئی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔‘
کمرہ عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید، علی محمد خان اور شبلی فراز کے علاوہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی اگلی نشستوں پر براجمان نظر آئیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل کے دلائل کے دوران عمران خان کافی بےچین نظر آئے۔ کبھی چھت کی طرف دیکھ رہے تھے اور کبھی سر ہاتھوں پر ٹکا رہے تھے۔ ساتھ بیٹھے رپورٹرز نے تبصرہ کیا کہ ’عمران خان بولنے کے لیے سخت بےچین ہیں تاکہ وہ اپنا اظہار خیال کر سکیں لیکن ابھی ان کو موقع نہیں مل رہا، چونکہ گرفتاری کے نو ماہ بعد یہ ان کی پہلی عوامی جھلک ہے جو کورٹ روم کی سکرین پر نظر آ رہی ہے۔‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مختلف قوانین معطل کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور جج ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ آئین اور قانون کی خفاظت کریں گے، یہ قانون سازی بل کو معطل کر دیتے ہیں پھر حتمی فیصلہ بھی نہیں دیتے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ’آیا بل کی سطح پر قانون سازی کو معطل کرنا پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے مترادف نہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’ایسا ہے تو ہم پارلیمنٹ کو معطل کر دیتے ہیں، ہم کب تک اپنے آپ کو بے وقوف بناتے رہیں گے، کب اس ملک کو آگے بڑھنے دیا جائے گا، ایک قانون کو معطل کر کے، سائیڈ پہ رکھ دیتے ہیں، پھر دوسرے مقدمات کو ترجیح دیتے ہیں، یا تو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کر دیں۔‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مختلف قوانین معطل کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور جج ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ آئین اور قانون کی خفاظت کریں گے، یہ قانون سازی بل کو معطل کر دیتے ہیں پھر حتمی فیصلہ بھی نہیں دیتے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ’آیا بل کی سطح پر قانون سازی کو معطل کرنا پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے مترادف نہیں۔‘ اس پر چیف جسٹس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’ایسا ہے تو ہم پارلیمنٹ کو معطل کر دیتے ہیں، ہم کب تک اپنے آپ کو بے وقوف بناتے رہیں گے، کب اس ملک کو آگے بڑھنے دیا جائے گا، ایک قانون کو معطل کر کے، سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں، پھر دوسرے مقدمات کو ترجیح دیتے ہیں، یا تو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کر دیں۔‘
’پروکسی کے ذریعے دھمکانا‘
گذشتہ روز فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’عدلیہ اگر ہماری پگڑیاں اچھالے گی تو ہم ان کا فٹ بال بنائیں گے۔‘
اس بیان پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ ’آپ نے ججوں کو پروکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ہے؟ کیا آپ پگڑیوں کے فٹ بال بنائیں گے؟‘
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ ’یہ سب توہین آمیز تھا، یہ سب کچھ توہین میں آتا ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آئندہ ہفتے دستیاب نہیں ہوں، خواجہ حارث صاحب آپ تو کہیں نہیں جا رہے؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’جی نہیں میں یہیں ہوں، مجھے کہیں بھی نہیں جانا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے برجستہ ریمارکس دیے کہ ’بانی پی ٹی آئی بھی جیل سے کہیں نہیں جا رہے۔‘
اس پر عدالت میں قہقہے گونجے تو پچھلی نشستوں سے علی محمد خان نے جملہ کسا کہ ’وہ جیل سے سیدھے وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔‘
تقریباً ڈھائی گھنٹے کی سماعت کے دوران عمران خان کو بولنے کا موقع نہیں ملا اور حکومتی وکیل دلائل دیتے رہے۔
بعدازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ججوں کی دستیابی پر آئندہ تاریخ کا اعلان کیا جائے گا جبکہ عمران خان کی وڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے انتظامات آئندہ سماعت پر بھی برقرار رہیں گے۔
گذشتہ سماعت پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کی تھی کہ اس کیس کے مرکزی درخواست گزار عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری یقینی بنائی جائے۔
14 مئی کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے اپنے حکم نامے میں نیب سے اخراجات اور ریکوری کی تفصیلات طلب کیں تھیں۔
سپریم کورٹ نے وکیل خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو عمران خان کے لیے آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک انتظام کرنے کی ہدایت کی تھی۔
گذشتہ برس 31 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ’نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے۔‘
نیب ترامیم کی مرکزی درخواست
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی۔
نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کیا تھا؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔
جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا تھا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
نیب ترامیم کا فیصلہ سپریم کورٹ میں کب چیلنج ہوا؟
گذشتہ برس17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
اپیل میں وفاق، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا۔ جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
پی ڈی ایم حکومت نے نیب میں کیا ترامیم کی تھیں؟
پی ڈی ایم حکومت کے دوران نیب کے قانون میں 27 ترامیم کی گئی تھیں، نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی جا سکتی تھی۔
نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہو گا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔
بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔
نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔