’ایران میں کرونا کی وجہ ایک مدرسے کے 700 چینی طلبہ ہیں‘

مشہد میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ محمد حسین بحرینی کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے واقعات کی وجہ قم کے دینی مدارس میں موجود سات سو کے قریب چینی طلبہ ہیں۔ 

مشہد میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ محمد حسین بحرینی  کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے واقعات کی وجہ قم کے دینی مدارس میں موجود سات سو کے قریب چینی طلبہ ہیں۔ (تصویر: المصطفیٰ یونیورسٹی ویب سائٹ)

ایک طرف تو ایرانی حکام قُم کو اس کے مقدس مقام ہونے کے برعکس کرونا وائرس کی وبا کا منبع قرار دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، تو دوسری جانب انہوں نے شہر کو قرنطینہ (آئیسولیشن) میں رکھنے کی تجویز بھی مسترد کر دی ہے۔

تعلیم کے شعبے سے وابستہ ایک ممتاز شخصیت کے خیال میں دراصل ایرانی شہر قُم ملک میں مہلک وبا کے پھیلنے کا ذمہ دارہے۔

مشہد میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ محمد حسین بحرینی کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے واقعات کی وجہ قم کے دینی مدارس میں موجود سات سو کے قریب چینی طلبہ ہیں۔ 

ایران میں کرونا وائرس کی وبا کا سرکاری سطح پراعلان گذشتہ بدھ کو کیا گیا، جب یہ خبر آئی کہ کرونا وائرس کوویڈ 19 میں مبتلا ہونے کے نتیجے میں پیدا شدہ پیچیدگیوں کی وجہ سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اُس وقت سے اب تک 12 افراد (سرکاری اعدادوشمار) لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ 60 وائرس سے متاثرہ ہیں، اگرچہ متاثرہ افراد کے غیرسرکاری اندازے کہیں زیادہ ہیں۔

محمد حسین بحرینی نے بظاہر نام نہاد ’المصطفیٰ سوسائٹی‘ (جسے المصطفیٰ بین الاقوامی یونیورسٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کی زیرنگرانی قائم دینی مدارس کے طلبہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس سال سرکاری امداد میں 53 فیصد اضافے کے بعد اسے 75 لاکھ ڈالر ملے ہیں۔

جامعہ المصطفیٰ کے سربراہ علی عباسی اسے ’تحقیقی مرکز‘ کہتے ہیں جہاں 130 ملکوں کے سکالر’سائنسی ترقی‘ کے لیے 25 سو اسلامی موضوعات پر علم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت سے منسلک خبررساں ادارے’مہر‘ نے قم میں اسلامی مدارس کے سربراہ علی رضا عارفی کے حوالے سے کہا ہے کہ کوویڈ 19 پھیلنے کا قم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ ’صرف دو چینی طلبہ کو دینی مدرسے میں جگہ کی پیشکش کی گئی ہے جنہیں پہلے ہی قرنطینہ میں رکھا گیا تھا اور ان میں وائرس نہیں پایا گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پہلے جامعہ المصطفیٰ نے چین سے سات سو طلبہ کو کیوں قبول کیا اور ایسے حالات میں مزید دو طلبہ کو رکھنے پر اس کے اصرار کے پیچھے کیا وجہ تھی جب کہ کرونا وائرس پہلے ہی دوسرے ملکوں میں پھیل رہا تھا؟

گذشتہ ایک دہائی کے دوران ایران اور چین کے دینی مدارس کے درمیان روابط مضبوط ہوئے ہیں۔ چین کی ڈیڑھ ارب آبادی میں سے دو کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ اس طرح اس نقطۂ نظر پر سرمایہ کاری ایران کے بیرون ملک اس نظریے سے مطابقت رکھتی ہے جس کے تحت وہ سعودی عرب کے ساتھ  محاذ آرائی چاہتا ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کے تحت ایران کرونا وائرس کے خلاف جدوجہد کی تمام بین الاقوامی کوششوں کے برعکس قرنطینہ کو مسترد کرتا ہے اور اس طرح مذہب کی تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ کو ملک میں داخل ہونے سے نہیں روکتا۔

خبررساں ادارہ تسنیم نیوز بھی حکومت اور مذہبی اداروں سے منسلک ہے۔ اس نے چار جولائی 2013 کو قم میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے چینی زبان کی کئی کلاسوں کا اعلان کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ’ہر سال قابل چینی نوجوانوں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب بھیجا جاتا ہے لیکن چینی زبان بولنے والے شیعہ علما اور مبلغین کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو چین میں اسلام کی تبلیغ کر سکیں۔‘

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں سعودیوں نے چینی مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے چین میں مساجد اور دینی مدارس قائم کیے ہیں۔ (تسنیم کے اندازے کے مطابق چین میں پانچ کروڑ مسلمان ہیں۔)

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ علما جو چینی زبان کے کورسوں میں رجسٹریشن کرواتے ہیں انہیں وظائف اور بیرون ملک کورس پڑھنے کے مواقعے فراہم کیے جائیں گے۔

یہ کورس اب بھی جاری ہیں اور طلبہ کو دی جانے والی مراعات کے اخراجات ایران کے قومی بجٹ سے پورے کیے جاتے ہیں۔

گذشتہ برس جامعہ المصطفیٰ میں تقریباً 52 ہزار ایک سو 33 غیرملکی علما کے لیے بجٹ مختص کیا گیا (جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے ہے)۔

یہ بجٹ 47 کروڑ ڈالر سے زیادہ تھا۔ ایک اضافی رقم بھی رکھی گئی جو پانچ کروڑ ڈالر سے کچھ ہی کم تھی۔

ایرانی صدر حسن روحانی کی حکومت کے قیام کے بعد ایران اور چین کے درمیان مذہبی شعبے میں تعاون میں خاصا اضافہ نظر آیا ہے۔ یکم دسمبر 2014 کو بیجنگ میں ثقافتی ناظم الامور سے ملاقات میں چین کی اسلامی سوسائٹی کے نائب سربراہ بدرالدین گوچن جن نے کہا: ’یہ ضروری ہے کہ چین سے ایک خاص تعداد میں لوگوں کو مذہبی تعلیم کے لیے ایران بھیجا جائے تاکہ وہ مذہبی اور قرآنی تہذیب کی تبلیغ کریں۔‘

اس کے جواب میں ایران کے محمد رسول الماسی نے کہا: ’جامعہ المصطفیٰ ایک بڑی یونیورسٹی اور تحقیق کا مرکز ہے جو مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے دنیا بھر کے غیرملکیوں کے لیے وقف ہے۔ ہم اس معاملے میں چین سے تعاون کرتے ہیں۔‘ الماسی نے حسن قرات کے مقابلوں میں چینی قاریوں کی موجودگی کا حوالہ بھی دیا جس نے ان کے الفاظ میں دونوں ملکوں کے درمیان ’قرآنی تہذیب‘ کو مزید فروغ دیا ہے۔

جامعہ المصطفیٰ میں غیر ملکی طلبہ کے لیے وظائف کی دستیابی

جامعہ المصطفیٰ کے سربراہ کے مطابق ایران میں 1978 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ’سائنسی مراکز‘ (دینی مدارس) کی تعداد 260 سے بڑھ کر 28 سو ہو چکی ہے اور ان میں پڑھنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار سے 40 لاکھ ہو گئی ہے جس سے جامعہ سربراہ کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی قوم میں ’سائنس و ثقافت‘ کو فروغ ملا ہے۔

جامعہ المصطفیٰ کی ویب سائٹ جس میں جامعہ کا ’آزاد جامعہ‘ کے طور حوالہ دیا گیا ہے، بتاتی ہے کہ ادارے کا ہیڈ کوارٹر قم شہر میں ہے اور اس کے دفاتر اور نمائندگی دنیا بھر میں ہے۔

جامعہ کے مختلف شعبوں جیسا کہ قرآن، حدیث اور اسلامی ضابطہ اخلاق سے گریجویشن کرنے والوں کو جامعہ کی طرف سے ’مستند عالمی اسناد‘ دی جاتی ہیں۔ جامعہ میں مختلف زبانوں میں کورس کروائے جاتے ہیں۔ کسی بھی جنس یا نسل کے مسلمان پیش کش کی صورت میں کسی بھی ڈگری کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ سکالرشپس اور وظائف غیرملکی طلبہ اور ان کے خاندانوں کے لیے تصور کیے جاتے ہیں۔

جامعہ کی ویب سائٹ پر غیرملکی طلبہ کے لیے مراعات سے متعلق تیسری شق میں لکھا ہے: ’المصطفی کے سالانہ بجٹ کے فریم ورک اور گنجائش میں رہتے ہوئے اور قواعد و ضوابط کے مطابق المصطفیٰ حصول تعلیم کے مختلف مدارج پر (طلبہ کے) بیوی بچوں سے ملاقات کے لیے سفر کے اخراجات برداشت کرے گی۔ مزید مراعات ایسے طلبہ کو دی جائیں گی جو مصنف اور حافظ قرآن بننے سمیت درس وتدریس اور تحقیق میں خصوصی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘

جامعہ المصطفیٰ غیرملکی طلبہ کو جن میں چینی شہری بھی شامل ہیں مفت رہائش، کرایہ، شادی کے لیے قرضہ، وظائف، طبی اور دوسری انشورنس اور دیگر مراعات بھی دیتی ہے۔

ایران اور چین کے درمیان مذہبی تعلقات غیرملکی طلبہ کو جامعہ المصطفیٰ میں تعلیم دینے تک محدود نہیں ہیں۔ چین میں ایران کی ثقافتی کور کی سب سے اہم ذمہ داری مذہبی ملک میں مذہبی محافل اور تقاریب کا انعقاد ہے۔ خبر رساں ادارے آئی کیو این اے (قرآن نیوز ایجنسی) چین میں ایرانی سفارت خانے کے ثقافتی شعبے نے گذشتہ سال مئی میں چین کی اسلامی سوسائٹی میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ اس کے علاوہ ستمبر میں ایران نے بھی بیجنگ میں ہونے والی ایک نمائش میں جامعہ المصطفیٰ کی شائع کردہ مذہبی کتابیں رکھیں۔

اس سے پہلے کہ قم میں واقع میڈیکل یونیورسٹی کے ڈین مدارس کے چینی طلبہ کی جانب شبہ کا اظہار کرتے اور انہیں ایران میں کرونا وائرس کی وبا کا ذریعہ قرار دیتے، وزیر صحت ساجد نمکی نے کہا کہ شہر میں وبا کا سبب ایک کاروباری شخصیت ہیں جنہوں نے حال ہی میں چین کا سفر کیا۔ بعض افراد نے شہر میں تعمیراتی منصوبوں میں کام کرنے والے چینی کارکنوں اور ٹیکنیشنوں کا حوالہ بھی دیا۔

ان میں کوئی بھی نظریہ حقیقت سے دور نہیں ہے جب کہ نجی ایرانی فضائی کمپنی ماہان نے چین میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پروازیں جاری رکھی ہوئی تھیں۔

ان مفروضوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ جن کا مقصد بیجنگ کو ہر قیمت پر خوش کرنا ہے، نظریے کی اہمیت اور تہران کی دوسرے ملکوں میں شیعہ اسلام کے فروغ میں دلچسپی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خواہ وہ مخصوص ملک اشتراکی چین ہی کیوں نہ ہو جس پر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا وائرس کوویڈ 19 کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا