’بھائی کی طبعی موت کی خبر عدالت کو دکھا کے قاتل بری ہو جائیں گے‘

سینیئر صحافی عزیز میمن کے بھائی نے پولیس رپورٹ کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پوسٹ مارٹم ہوا ہی نہیں تو میرے بھائی کی طبعی موت کی رپورٹ کیسے دی گئی؟

عزیز میمن گذشتہ 35 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ اور پچھلے 27 سالوں سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے (فائل تصویر: امر گرڑو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں سندھی زبان کے ٹیلی ویژن چینل ’کے ٹی این نیوز‘ اور روزنامہ کاوش کے صحافی عزیز میمن کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے سندھ حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کیا ہے، دوسری جانب پولیس نے صحافی کی موت کو طبعی قرار دیا ہے، تاہم اہل خانہ اس پولیس رپورٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔

56 سالہ عزیز میمن کی لاش نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور میں گذشتہ ماہ 16 فروری کو ایک نہر سے ملی تھی۔

لاش کی برآمدگی کے بعد محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ ’سینیئرصحافی عزیز میمن کی لاش شہر سے باہر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کے نزدیک روہڑی کینال سے نکلنے والی نہر گودو شاخ سے برآمد ہوئی۔ ان کے گلے میں کیبل کی تار پھنسی ہوئی تھی اور خدشہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلا گھونٹ کرقتل کرنے کے بعد نہر میں پھینکا گیا ہے۔‘

لیکن اب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس حیدرآباد ریجن ولی اللہ کا کہنا تھا: ’میڈیکل رپورٹ میں صحافی کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘

ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ ’نجی ٹی وی کے رپورٹر عزیز میمن کی موت طبعی ہے جبکہ تفتیش کے لیے کیمرہ مین کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘

تاہم عزیز میمن کے بھائی حفیظ میمن نے قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی رپورٹ مسترد کر دی اور قتل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی یا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

حفیظ الرحمٰن میمن کا کہنا تھا: ’ایسی رپورٹ پیش کرکے عزیز میمن کے قتل کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ کا ابھی صرف ایک حصہ آیا ہے۔ حتمی رپورٹ آنے سے قبل عزیز میمن کی موت طبعی کیسے قرار دے دی گئی؟‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حتمی رپورٹ آنے سے قبل عزیز میمن کی موت کو طبعی موت قراردینا ایک سازش ہے، انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حفیظ میمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک پوسٹ مارٹم ہوا ہی نہیں تو میرے بھائی کی طبعی موت کی رپورٹ کیسے دی گئی؟‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے پہلے ایس ایس پی نوشہروفیروز نے ایسی رپورٹ جاری کر دی کہ ان کے بھائی کی طبعی موت ہوئی ہے۔

’روہڑی کے جس ہسپتال میں پوسٹ مارٹم ہونا تھا وہاں کے لیب ایگزامنر کو بھی حال ہی میں جبری چھٹی پر بھیجا گیا ہے، یہ ایک سازش ہے۔ میری بھائی کی طبعی موت کی خبریں اخبارات میں لگی ہیں، اگر کل قاتل پکڑے بھی جائیں تو وہ لوگ اخبارات کے تراشے عدالت کو دکھا کر بری ہوجائیں گے۔ میں نے عدالت میں جی آئی ٹی بنانے کی درخواست کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیم بنائی جائے مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا اور اب ایسی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، جو میرے بھائی کے خون کو غلط رخ میں لے جانے کی کوشش ہے۔‘

عزیز میمن گذشتہ 35 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ اور پچھلے 27 سالوں سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔

لاش ملنے کے بعد انٹرنیٹ پر وائرل ایک پرانی ویڈیو میں عزیز میمن کو یہ کہتے سنا گیا تھا کہ انہوں نے ’بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کے دوران مارچ میں شرکت کرنے والے لوگوں سے انٹرویو کیے جس میں لوگوں نے بتایا کہ انہیں پیسوں کا لالچ دے کر لایا گیا اور بعد میں پیسے بھی نہیں دیے گئے۔‘

ویڈیو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مارچ والی ویڈیو کے بعد ’ایس ایس پی نوشہروفیروز اور سیاسی پارٹی کے مقامی کارکنوں نے انہیں دھمکیاں دیں اور وہ تحفظ کے لیے اسلام آباد آئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان