’صحافی عزیز میمن کے موبائل فونز کا ریکارڈ ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا‘

سندھی زبان کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کی پراسرار ہلاکت کے بعد لاش ایک نہر سے ملنے کے واقعے کو تین گزر چکے ہیں جبکہ تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔

صحافی عزیز میمن سندھی زبان کے ٹیلیوژن چینل کے ٹی این نیوز اور روزنامہ کاوش کے ساتھ منسلک تھے (فائل  فوٹو: امر گرڑو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں سندھی زبان کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کی پراسرار ہلاکت کے بعد لاش ایک نہر سے ملنے کے واقعے کو تین گزر چکے ہیں جبکہ تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔

صحافی عزیز میمن سندھی زبان کے ٹیلیوژن چینل کے ٹی این نیوز اور روزنامہ کاوش کے ساتھ منسلک تھے۔

ان کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پولیس نے آخری بار عزیز میمن کے ساتھ جانے والے ان کے کیمرہ مین اویس قریشی کو گرفتار کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ مقامی پولیس نے قتل کی جگہ کا تعین کرنے کے لیے کھوجی کتوں کی مدد لی اور کتوں نے ضلع خیرپور کی ایک نہر کے پاس کی جگہ شناخت کی، جہاں، بقول پولیس خون کے نشانات بھی ملے۔

نوشہرو فیروز کے مقامی صحافی سلیم مغل کے مطابق کھوجی کتوں کی مدد سے عزیز میمن کے ہلاکت کی جگہ کی نشاندہی دوسرے ضلع میں ہونے کے بعد پولیس نے حد بندی کا ’بہانا‘ بناکر تاحال کیس درج نہیں کیا ہے۔

عزیز میمن کی پراسرار ہلاکت کے بعد پولیس حکام نے ضلع نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر کو غفلت برتنے کے الزام کے بعد ہٹا دیا ہے اور ان کی جگہ اکرم جانوری کو انچارج ایس ایچ او محراب پور تعینات کیا ہے۔

اکرم جانوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کھوجی کتوں نے جس جگہ کی نشاندہی کی ہے وہ دوسرے ضلع یعنی خیرپور میں ہے اس لیے وہ جگہ ہمارے تھانے یا ضلع کی حدود میں نہیں آتی۔ مگر اس کے باجود ہم ایف آئی آر درج کرنے کو تیار ہیں مگر ورثا مقدمہ کرانے کو تیار نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے صحافی عزیز میمن کے بھائی حافظ میمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اصولی طور پر پولیس کو پہلے دن ہی ازخود ایف آئی آر درج  کر لینی چاہیے تھی مگر انھوں نے نہیں کی اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم آکر مقدمہ درج کروائیں۔ ہم غلط مقدمہ درج نہیں کروانا چاہتے کیوں کہ پولیس نے اب تک نہ تو جیوفینسگ کروائی ہے اور نہ ہی ان کے فون کی فرانزک کروائی گئی ہے جس سے کوئی سُراغ مل سکے۔ ہم بدھ کو مقدمہ درج کروانے جائیں گے۔‘

اکرم جانوری نے دعویٰ کیا کہ عزیز میمن کے دو موبائل فونز کی فرانزک کرائی گئی ہے مگر رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔

’ہم نے ابتدائی طور پر دونوں فون کو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ جس دن ان کی لاش ملی اس سے ایک دن پہلے تک کا ریکارڈ تھا جبکہ باقی ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔ گرفتار اویس قریشی نے ہمیں بتایا کہ عزیز میمن پچھلے ایک ہفتے سے بہت پریشان تھے۔‘

عزیز میمن گذشتہ 35 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 سالوں سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔

واضح رہے کہ ان کی لاش ملنے کے بعد انٹرنیٹ پر وائرل ایک پُرانی ویڈیو میں انھیں یہ کہتے سنا گیا تھا کہ انھوں نے ’بلاول بھٹو کی ٹرین مارچ کے دوران مارچ میں شرکت کرنے والے لوگوں سے انٹرویو کیے جس میں لوگوں نے بتایا کہ انھیں پیسوں کی لالچ دے کر لایا گیا اور بعد میں پیسے بھی نہیں دیے گئے۔‘

ویڈیو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مارچ والی ویڈیو کے بعد ’ایس ایس پی نوشہروفیروز اور سیاسی پارٹی کے مقامی کارکنوں نے دھمکیاں دیں اور وہ تحفظ کے لیے اسلام آباد آئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان