پی ٹی آئی کی بلوچستان سے وعدہ خلافی 

بلوچستان میں عمران خان کو رنج اس بات کا ہے کہ صوبے میں ان کی حکومت کیوں قائم نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کو اسٹبلشمنٹ نواز کیمپ میں لانا بہت ہی آسان کام ہے لیکن اس کے باوجود صوبے کا اشرافیہ ان کے ساتھ نہیں گیا۔

پرویز خٹک کے وعدوں کے برعکس پی ٹی آئی سرکار بڑی پھرتی سے بلوچستان کے حوالے سے اپنے وعدوں سے مکر رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ وعدے سرے سے کیے ہی نہیں تھے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی تو کُجا اب تو حکومت ان کے وجود سے انکاری ہے (اے ایف پی)

پہلی بات تو یہ ہے کہ جن وعدوں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے براہ راست بلوچستان کی عوام کے ساتھ نہیں بلکہ محض ایک سیاسی جماعت یعنی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے ساتھ کیا تھا۔

ویسے پی ٹی آئی کو صوبہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس امید سے خصوصی وعدے کرنے کے عوض انہیں سیاسی حمایت اور فوائد حاصل ہوں گے کی بجائے پورے بلوچستان سے یہ وعدے کرنے چایئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی جماعت انتخابات جیت کر اقتدار میں آتی ہے تو وہ محض اپنی جیالوں کی جماعت نہیں رہتی اور نا ہی اسے صرف اس خطے کی جماعت ہونے تک محدود ہونا چایئے جہاں سے اسے سب سے زیادہ ووٹ ملیں بلکہ برسراقتدار آنے والی جماعت پر سب سے پہلے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ ماضی کی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سب کی حکومت بنے اور سب کی بلاامتیاز خدمت کرے۔

بلوچستان میں بدقسمتی سے پی ٹی آئی یہ سب کچھ کرنا بھول گئی بلکہ پہلی مرتبہ وفاق میں حکومت میں آنے والی اس جماعت نے بلوچستان کی طرف ایک عجیب وغریب پالیسی اپنائی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دو سال قبل ہونے والے انتخابات کے نتائج  دیکھ کر یوں لگا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔

جس طرح 1970کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو باقی ملک (مغربی پاکستان) میں تو اکثریت حاصل ہوئی لیکن بلوچستان اور صوبہ سرحد ( خیبر پختونخوا) میں اس کی حکومت قائم نہ ہو سکی۔ بھٹو صاحب نے کبھی بلوچستان میں بنے والی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔

بلوچستان میں بھی معاملہ وہی ہے کہ عمران خان کو رنج اس بات کا ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کیوں قائم نہیں ہوئی۔ سننے میں تو یہ آیا تھا کہ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کو اسٹبلشمنٹ نواز کیمپ میں لانا بہت ہی آسان کام ہے لیکن اس کے باوجود کہ خود پی ٹی آئی پر اسٹبلشمنٹ نواز ہونے کا الزام کئی بار لگ چکا ہے بلوچستان کا اشرافیہ ان کے ساتھ نہیں گیا۔

اسلام آباد میں عموماً جس جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے اکثر اوقات اس ہی جماعت کی بلوچستان میں حکومت بھی بنتی ہے لیکن پی ٹی آئی بلوچستان میں انتخابات میں کامیاب نہ ہو نے سے ایک نئی آزمائش کا شکار ہو گئی۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اسے صوبہ میں ایک ایسی نئی جماعت (بلوچستان عوامی پارٹی) کے ساتھ کام کرنا پڑا جس کا انتخابات سے چند ماہ پہلے تک کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

بی اے پی کی کوئی سیاسی تاریخ ہے اور نا ہی کوئی واضح  سیاسی نظریہ یا محل وقوع۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ باقی ملک میں تو جنرل مشرف کے جانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کا بڑی حد تک خاتمہ ہو گیا لیکن بلوچستان میں ’قومی مفاد‘ کے پیش نظر مشرف کی باقیات پر مشتمل اس جماعت کی وجود کی ضرورت پھر بھی محسوس کی گئی۔ چنانچہ ق لیگ  (یا اسی سوچ کے حامیوں) کو بی اے پی کا نام دے کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی گئی۔

یہ جماعت حسب توقع انتخابات میں کامیاب ہوگئی، اس کی بلوچستان میں حکومت بن گئی اور اس نے وفاق اور صوبے میں پی ٹی آئی کی غیرمشروط حمایت بھی کی لیکن اس کے باوجود خود دل ہی دل میں عمران خان کو یہ غم کھاتا گیا کہ انہیں بلوچستان میں کم از کم چند ’اصلی سیاسی قوتوں‘ کی حمایت حاصل ہونی چایئے۔ خان صاحب کی خواہش جلد ہی پوری ہوگئی کیونکہ خود بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی ایک عرصے سے اسٹبلشمنٹ کی قربت حاصل کرنے کے لیے اپنے موقف میں مسلسل نرمی اور لچک لا رہی تھی۔

بی این پی اتنے طویل عرصے سے حزب اختلاف اور حکومت مخالف سیاست میں رہی تھی کہ شروع میں تو اسے حکومت کی جانب پیش قدمی کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ بی این پی کی قیادت کے ذہن میں بظاہر یہی سوال گھوم رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ایک موقع پر بی این پی کے رہنما اور کارکن سمجھ رہے تھے کہ شاید خدا نے ان کے نصیب میں محض یہی لکھا ہے کہ وہ مظلوموں کے حقو ق پر بات کریں۔شاید وہ اس جنم میں صرف اپوزیشن ہی میں رہیں گے۔

اس نوجوان کی طرح جو اپنے والدین سے بےصبری سے استفسار کرتا ہے کہ ’امی، ابو کیا کبھی میری شادی ہوگی؟‘ بی این پی کے کارکن بھی یہ سوچ رہے تھے کہ کیا ہمارے مقدر میں کبھی حکومت میں آنا اور وزارتیں لینا لکھا ہے؟ اختر مینگل کو وزیر اعلیٰ بننے 23 سال بیت گئے ہیں۔ ان کے جان نثاروں کی ایک بڑی تعداد اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جب وہ آخری بار 1997 میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنےتھے۔ جو نوجوان پچھلے 20 سالوں سے ان کے ساتھ ہیں انہوں نے اپنے قائد کو صرف اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

بہرکیف جب بی این پی نے پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تو ان کے سامنے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ ایسے فیصلے کو عوام کے سامنے کیسے justifyکیا جائے کیونکہ پی ٹی آئی پر اسٹبلشمنٹ نواز پارٹی ہونے کا الزام لگ چکا تھا۔ سیاسی جادوگر اکھٹے ہوئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ کیوں نا ایسا کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے۔ چنانچہ بی این پی نے پی ٹی آئی کی وفاق میں اس شرط پر حمایت کا اعلان کیا کہ پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے بی این پی کے چھ نکاتی مطالبات پر عمل درآمد کرے گی۔

اختر مینگل سولو فلائیٹ کرنے والے سیاست دان ہیں۔ انہوں نے واپس آ کر اپنے حامیوں کو بتایا کہ ہم بلوچستان کے حقوق کے حصول کے لیے ہر کسی کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار ہیں۔ ان چھ نکات میں کیا ہے شاید بی این پی اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان کی اکثریت کو اس کا سرے سے پتہ ہی نہیں لیکن نعرہ بازی اور دعویٰ دارے کی حد تک ان چھ نکات نے بی این پی کو ایک نئی سیاسی زندگی دی۔

مینگل کے چھ نکات میں ایک نقطہ جو باقی سب پر حاوی نظر آیا وہ تھا لاپتہ افراد کا معاملہ۔ خود لاپتہ افراد کے لواحقین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب سے سردار مینگل نےیہ معاملہ اپنے چھ نکات میں شامل کیا ہے تب سے کئی لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔ اس کے لیے وہ مینگل کے شکر گزار بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شہری لاپتہ کئے گئے ان کی رہائی کے لیے بی این پی اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ہی کیوں لازمی ہے؟ کیا یہ سب پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ کیا پاکستان کے آئین کے تحت ان کے حقوق محفوظ نہیں ہیں؟ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شہری کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق غیرمشروط طور پر حاصل ہوں، اس لیے دونوں جماعتوں کے درمیان جو معاہدہ اور اس کا نتیجہ (خواہ وہ مثبت ہی کیوں نا ہو) غیر اخلاقی اور ناجائز ہے۔ شہریوں اور ان کے حقوق  اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا سراسر ناانصافی ہےاور  یہ ایک غیرانسانی عمل ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچستان کے بہت سارے لوگ تکینکی اعتبار سے ’لاپتہ‘ نہیں ہیں بلکہ وہ حکومت ہی کے کسی ادارے کی تحویل میں ہیں اور ان کی رہائی اس بات سے مشروط ہے (جو کہ ہر گز نہیں ہونا چایئے) کہ بی این پی کب تک پی ٹی آئی کی حمایت کرے گی۔ بی این پی کو خطرہ یہ ہے کہ اگر وہ پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد کا خاتمہ کرتی ہے تو جو چند لاپتہ افراد واپس لوٹے ہیں کہیں وہ دوبارہ لاپتہ نا ہوں اور جن کی رہائی نظر آ رہی ہے وہ ایک بار پھر خطرے میں نا پڑے۔ جس معاشرے میں قانون کی بالادستی ہو، وہاں ایسا ہرگز نہیں ہونا چایئے۔

بی این پی اور  پی ٹی آئی کا ا تحاد شروع دن سے ہی کمزور اور غیرفطری تھا لیکن اب بتدریج زوال پزیر ہوتا جارہا ہے۔ اب پی ٹی آئی نے یہ اشارہ دینا شروع کر دیا ہے کہ وہ بی این پی کے چھ نکاتی مطالبات پورے نہیں کرسکتی۔ حکمران جماعت کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند نے واضح الفاظ میں بی این پی کے مطالبات  کو ایک طرح سے غیرحقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی این پی کے مطالبات ایک سال تو کُجا پانچ سال میں بھی پورے نہیں ہوں گے۔ رند کے بیان کے ردعمل میں بی این پی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے  کہا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ’ایسے بیانات دینا اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا اور کہنا کہ مسائل حل نہیں ہو سکتے قابل افسوس عمل ہے۔‘

سولہ جنوری کو بی این پی کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات میں وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر اندر بلوچستان سے پانچ سو لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا۔ پانچ سو افراد کا بغیر کسی عدالتی فیصلے کے حکومت کی تحویل میں ’لاپتہ‘ ہونا بذات خود ایک تہلکہ خیز انکشاف ہے۔ لیکن وزیر دفاع کے وعدے کے بعد کوئی معجزہ نہیں ہوا اور 500 لاپتہ افراد رہا نہیں کئے گئے۔ وعدہ کرنا اور ان سے مکرنا ایک نارمل سی بات ہو گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرویز خٹک کے وعدوں کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب پی ٹی آئی سرکار بڑی پھرتی سے بلوچستان کے حوالے سے اپنے وعدوں سے مکر رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ وعدے سرے سے کیے ہی نہیں تھے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی تو کُجا اب تو حکومت ان کے وجود سے انکاری ہے۔ 

یکم مارچ کو ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا یہ دعویٰ شائع کیا کہ ’موجودہ وقت مسنگ پرسنز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آج سے دس پندرہ سال قبل لوگ افغانستان اور کمشیر جہاد کے لیے چلے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں ایک روایت ہے کہ جب وہ لڑائی کرتے ہیں تو پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں وہ لاپتہ افراد نہیں ہیں۔‘ یہ بیانیہ آفتاب شیرپاؤ، رحمان ملک سے لے کر اعجاز شاہ تک پاکستان کا ہر وزیر داخلہ دہراتا آ رہا ہے لیکن کوئی اپنی بات کے حق میں ثبوت دینے پر آمادہ نہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اعجاز شاہ کہتے ہیں جو اعداد و شمار ہیں ان میں بھی بڑا ابہام ہے۔ کتنے لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں، میرے پاس بھی ان کی صحیح تعداد نہیں۔ ایجنسیوں کے پاس کچھ اور تعداد ہے، پولیس، سویلین انتظامیہ اور سیاسی قیادت کے پاس الگ الگ تعداد ہے، کوئی شکایت ہے تو ہم اس کو سن رہے ہیں لیکن یہ اب کوئی ایشو نہیں ہے۔‘

دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے  اپنے وعدوں سے انحراف کے بعد ان کی اور بی این پی کی اتحاد کا کیا بنتا ہے۔ بی این پی روزِ اول ہی سے یہ اتحاد ترک کرنے کی دھمکیاں تو دیتی آرہی ہے لیکن تمام نامساعد حالات کے باوجود حکومت کے ساتھ بھی رہی ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ بلوچستان کے عام شہری بالخصوص لاپتہ افراد اور ان کے لواحقین غیریقینی کی اس سیاست کی وجہ سے شب و روز متاثر ہو رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ