نیو یارک کے چوہے انسانی عادات اپنانے لگے

نیو یارک جیسے گنجان آباد شہروں میں رہنے والے چوہے اپنے ہمسائے انسانوں کی طرح انسانوں کی اربن ڈائٹ اور آلودگی کے باعث بیماریوں اور صحت کے مسائل کا زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔

2015 میں نیو یارک کے ایک سب وے سٹیشن میں پیزا   کھینچے ہوئے ایک چوہے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کا نام بعد میں ’پیزا ریٹ‘ پڑ گیا (سکرین گریب)

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہروں میں بسنے والے چوہے بھی انسانوں کی طرح شہری دباؤ سے متاثر ہو رہے ہیں۔

نیو یارک جیسے گنجان آباد شہروں میں رہنے والے چوہے اپنے ہمسائے انسانوں کی طرح انسانوں کی اربن ڈائٹ اور آلودگی کے باعث بیماریوں اور صحت کے مسائل کا زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔

محققین نے خوراک، طرز عمل اور نقل و حرکت سے وابستہ درجنوں ایسے جینز کی نشاندہی کی ہے جن سے نیویارک میں چوہوں کو شہر کے ماحول میں پنپنے میں کامیابی ہوئی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں آبادی کے جینیاتی ماہر اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے آربیل ہارپیک نے سائنسی جریدے ’نیچر‘ کو بتایا: ’ارتقائی حیاتیات کا ماہر اور نیو یارک کا شہری ہونے کے ناطے میں حیران ہوتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کہ چوہوں نے خود کو شہری ماحول کے مطابق ڈھال لیا ہے۔‘

اس تحقیق میں شہر بھر سے تقریباً 400 عام بھورے چوہے جمع کیے گئے اور 29 چوہوں کے مکمل جینومز (ڈی این اے) مرتب کیے گئے تا کہ ان کا موازنہ شمال مشرقی چین کے دیہی علاقوں کے چوہوں کے پہلے سے مرتب کردہ جینومز سے کیا جاسکے۔ چین کے ان علاقوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ چوہوں کا وجود یہاں سے شروع ہوا۔

تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ چوہوں کے متعدد جینز میں مخصوص عمل ’سلیکٹیو سویپ‘ کے آثار دیکھے گئے۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جہاں فائدہ مند تغیر اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ یہ آبادی میں عام ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانوں میں ’سلیکٹیو سویپ‘ کی ایک مثال اس جین کا پایا جانا ہے جو بالغ انسانوں کو دودھ ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور ’لیکٹوس انٹالرینس‘ (دودھ کے ہاضمے میں مسائل) سے بچاتا ہے۔

آربیل ہارپیک نے اس کی وضاحت کچھ یوں کی: ’شمال مشرقی چین کے دیہی علاقوں میں بھورے چوہوں کی آبائی نسل سے حاصل شدہ نمونے کے مقابلے میں نیو یارک کے چوہوں میں ان کی آبائی آبادی سے بچھڑنے کے بعد ہونے والے ’سویپ‘ کا فرق ظاہر ہوتا ہے (اور ایسا گذشتہ سینکڑوں سالوں بعد وقوع پزیر ہوا ہے)۔

تحقیق کاروں نے مطالعے میں لکھا ہے کہ ’شاید شہروں میں بسنے والے انسانوں اور چوہوں کے درمیان جو چیز سب سے زیادہ مشترک ہے وہ ہے ان کی خوارک۔۔۔  آج  انسانی اربن ڈائٹ کا بہت بڑا تناسب پروسسڈ چکنائی اور چینی پر مشتمل ہوتا ہے جو صحت عامہ کے بہت سے مسائل کا باعث ہے۔ اور چوہے بھی صحت سے متعلق ان مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔‘

انہوں نے اس بات کے خدشے کا بھی اظہار کیا کہ شہری علاقوں میں مچھروں کی انواع چوہوں اور انسان دونوں کا خون چوستی ہیں جو ایک نئی اور مشترکہ بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔

مطالعے میں نتیجہ اخذ کیا گیا: ’چونکہ چوہے زیادہ تر دیگر  ممالیہ جانوروں کی نسبت شہروں میں بسنے والے انسانوں کے زیادہ قریب رہتے ہیں اور خوراک حاصل کرتے ہیں لہذا ان کے ارتقا اور عادات اپنانے کے عمل پر نظر رکھنا انسانوں پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔‘  

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق