طیب اردوغان: زمینی حقائق اور ہمارے فکری مغالطے

ریاستوں کے درمیان مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، عقیدت کی بنیاد پر نہیں۔ ہمیں عقیدت کے آزار سے نکل کر دنیا سے برابری اور احترام کی بنیاد پرمعاملہ کرنے کے آداب سیکھنا ہوں گے۔

(اے ایف پی)

طیب اردوغان اور رشید دوستم میں تعلق خاطر کی نوعیت کیا ہے؟ دونوں مل کر اعلائے کلمۃ الحق اور احیائے اسلام کی جدوجہد کی گتھیاں سلجھاتے رہتے ہیں یا یہ ایک نیشن سٹیٹ کا مفاد ہے جو اسلام پسند طیب اردوغان کو ایک کمیونسٹ وار لارڈ کے قریب لے جاتا ہے؟

یاد رہے کہ اس سوال کا مخاطب ترکی کی خارجہ پالیسی نہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کی سادہ لوحی ہے جو شدت جذبات میں ہر تیسرے آدمی کو مسلم دنیا کا نجات دہندہ اور عالم اسلام کا بے لوث سپاہی سمجھ کر خود پر رقت طاری کر لیتے ہیں۔

رشید دوستم کا مبلغ تعارف اتنا ہے کہ وہ ایک کمیونسٹ جنگی سردار ہیں جن کا دامن انسانیت کے خلاف جرائم کے سنگین الزامات سے داغدار ہے۔ ان پر نہ صرف اپنی بیوی کے قتل کا الزام ہے بلکہ ہیومن رائٹس واچ نے انہیں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی ٹھہرا رکھا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے الفاظ مستعار لوں تو وہ ’بد نام ترین وار لارڈ‘ ہیں۔ اس وار لارڈ کی لہو رنگ داستان کے پرانے ابواب کو تو ایک طرف رکھ دیجیے، یہ ایک واقعہ ہی ان کے تعارف کے لیے کافی ہے جس کی حدت سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا اور طیب اردوغان نے آگے بڑھ کر انہیں اپنے دامان عافیت میں سمیٹ لیا۔

یہ نومبر2016 کا واقعہ ہے۔ رشید دوستم اس وقت افغانستان کے نائب صدر تھے۔ بز کشی کا میچ ہو رہا تھا۔ وہاں ان کے سیاسی حریف جوزجان کے سابق گورنر احمد ایچی بھی موجود تھے۔ رشید دوستم کی ان سے تلخی ہوئی، ان کے مسلح محافظوں نے ان کے رفقا پر تشدد کے بعد انہیں اغوا کر لیا اور دس دن اپنے پاس رکھا۔ مبینہ طور پر اس دوران ان کے ساتھ بد فعلی کی گئی اور اس سفید ریش انسان کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

اس پر افغان حکومت نے تحقیقات شروع کر دیں اور رشید دوستم کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا ہو گئی۔ کمزور حکومت ایک طاقتور وار لارڈ کے خلاف کارروائی بھی نہیں کر سکتی تھی اور اس کے لیے خاموش رہنا بھی نا ممکن تھا کیونکہ اس واقعے کی بازگشت مغربی ممالک میں بھی سنائی دے رہی تھی اور حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ دوستم کے خلاف کارروائی کی جائے۔ رشید دوستم کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے ترکی کا طیارہ کابل ایئر پورٹ پر اترا اور ازبک وار لارڈ کو ساتھ لے گیا۔ جناب رجب طیب اردوغان کے پاس۔ رشید دوستم نے دو سال وہاں گزارے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوستم کو 2008 میں بھی افغانستان چھوڑنا پڑا تھا۔ اتفاق یہ کہ اس وقت بھی ان پر یہی الزام تھا کہ ان کے حکم پر ان کی ملیشیا نے ایک سیاسی حریف کو اغوا کیا اور اسے بد فعلی کا نشانہ بنایا۔ اتفاق دیکھیے اس وقت بھی دوستم کو ترکی کے سوا کہیں جائے امان نہ ملی۔ ایک بار نہیں، قریباً نصف درجن مواقع ایسے آئے جب رشید دوستم کے لیے افغانستان میں رہنا ممکن نہ رہا تو وہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے ترکی چلے گئے۔ سوال یہ ہے ترکی کی رشید دوستم میں اتنی دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟ اسلام کی سربلندی، نیشن سٹیٹ کا مفاد یا ترک قوم پرستی کا آزار؟

رشید دوستم ازبک ہیں، لیکن ترکوں سے انہیں ایک دور کی نسبت ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ازبک اصل میں ترک منگول نسل سے ہیں۔ ان کی زبان اگر چہ ازبک ہے ان کا لہجہ ترک ہے۔ 2002 میں رشید دوستم نے اپنا میڈیا نیٹ ورک قائم کیا اور آئینہ ٹی وی چینل بنایا تو وہاں ہر روز دو گھنٹے ترک زبان کی ترویج کے لیے پروگرام ہوتے تھے جس پر دوستم کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ وہ نسلی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ تو کیا اس باہمی تعلق خاطر کی بنیاد قوم پرستی ہے؟ طیب اردوغان تو اسلام کے سپاہی ہیں انہیں قوم پرستی سے کیا واسطہ؟

ملائیشیا کے مہاتیر محمد صاحب کو لے لیجیے۔ بہت سال پہلے جب میں طالب علم تھا وہ بین الاقوامی یونیورسٹی تشریف لائے اور فرمایا: ’پاکستان کا ایٹم بم امت مسلمہ کا ایٹم بم ہے۔‘

میں یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ ملائشیا کی معاشی خوشحالی پر اگر صرف ملائیشیا کا حق ہے تو پاکستان کا بم ساری امت کا بم کیسے ہو گیا؟ حال ہی میں ملائیشیا میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جہاں عمران خان وعدے کے باوجود نہ جا سکے اور ان پر تنقید ہوئی۔ وزیر اعظم کو بلاشبہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا تا کہ اس پر قائم رہا جا سکے لیکن دوسری طرف کا حال بھی تو دیکھیے۔ ایک ماہ نہیں گزرا اور مہاتیر صاحب اب سابق وزیر عظم ہو چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں اس کانفرنس میں ’امت‘ کے نام پر اقتدار کی طوالت کا سامان تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو؟ ایسے کام اقتدار کے آخری ایام میں ہی کیوں یاد آتے ہیں؟

ہماری خود سپردگی کا عالم دیکھیے، اردوغان اسرائیل کو تسلیم کر کے بھی ہمارے ہاں امت کے عظیم رہنما ہیں لیکن ہمیں ہمارا ہر دوسرا رہنما ’یہودی ایجنٹ‘ نظر آتا ہے۔ ہم افغان مہاجرین کے لیے پورا ملک اور اس کے سارے معاشی امکانات کھول کر رکھ دینے کے باوجود اچھے نہیں ہیں اور اردوغان صاحب شامی مہاجرین پر اجازت کے بغیر ایک سے دوسرے شہر جانے کی پابندی عائد کر کے بھی امت کے ’ارطغرل بے‘ ہیں۔

صاف نظر آرہا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں میں ناکامی کے بعد طیب اردوغان کی ترجیح اب مسلم دنیا میں اثرو رسوخ بڑھانا ہے۔ یہ ایک نیشن سٹیٹ کے مفادات کے تحت وضع کی گئی پالیسی ہے جس کا ہر ریاست کو حق ہے اس لیے سوال ترکی کی خارجہ پالیسی کا نہیں، سوال اپنی سادہ لوحی کا ہے۔

یاد رکھیے ریاستوں کے درمیان مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، عقیدت کی بنیاد پر نہیں۔ ہمیں عقیدت کے آزار سے نکل کر دنیا سے برابری اور احترام کی بنیاد پرمعاملہ کرنے کے آداب سیکھنا ہوں گے۔

ہمارے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں، ہمیں اب بڑا ہو جانا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ