کرونا ڈائری سے چند اقتباسات

شروع شروع میں دنیا مجھے ’چین کا وائرس‘ کہتی تھی، جس پر چین سے زیادہ مجھے اعتراض تھا، لہٰذا میں طیش میں آ کر عالمی دورے پر نکل گیا۔

کس نے سوچا تھا کہ میرے ڈر سے افریقی ممالک یورپ والوں کا داخلہ بند کریں گے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ میرا علاج ڈھونڈنے کے لیے پاکستان کے سیاست دان امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی بجائے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔ (کارٹون: صابر نذر)

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

آداب عرض ہے۔ آج ہم آپ کی ملاقات کروائیں گے ایک ایسی ہستی سے، جو پوری دنیا میں موضوعِ گفتگو ہے۔ لوگ انہیں کرونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔ جانتے کم ہیں، خود ساختہ مفروضے زیادہ گھڑ رہے ہیں۔

ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے اور بجا ہے۔ جس رفتار سے ایک ایک کر کے ہر ملک کو اس وائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے، جدید سائنسی ٹیکنالوجی بھی بےبس نظر آ رہی ہے۔ ہر ٹیلی ویژن سکرین، اخبار اور موبائل فون پر ان کے آباؤ اجداد کی تفصیل ڈھونڈی جا رہی ہے۔ ہم بھی اسی تگ و دو میں جان پر کھیل کر ’ماسک‘ پہن کر ان کا انٹرویو کرنے آن پہنچے ہیں۔

یہاں پہنچ کر ہمیں کرونا وائرس صاحب کے ناز و اندام کسی مغرور حسینہ سے کم نہیں لگے۔ وقت کی قلت کے باعث تفصیلی انٹرویو کے وعدے کے باوجود ہمیں ان کی ڈائری پر اکتفا کرنا پڑا، جہاں ان کے پاکستان کے دورے کی تمام تفصیل درج ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں: ‘کرونا وائرس کی ڈائری سے تفصیلی اقتباسات۔‘

میرا نام کرونا وائرس ہے۔ آج کل پوری دنیا میں میرے چرچے ہیں اور ہر ملک کا سائنس دان مجھ سے ’متاثر‘ ہوئے بغیر میرا علاج ڈھونڈنے میں مشغول ہے۔ میں آخر میں بتاؤں گا کہ میں آخر ہوں کون اور میرے آنے کا مقصد کیا ہے۔ شروع شروع میں دنیا مجھے ’چین کا وائرس‘ کہتی تھی، جس پر چین سے زیادہ مجھے اعتراض تھا، لہٰذا میں طیش میں آ کر عالمی دورے پر نکل گیا۔

ملک ملک گھوم کر مجھے اندازہ ہوا کہ انسان چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو، گورا ہو، کالا ہو، ہوتے سب ایک جیسے ہیں۔ سب کو ایک سی باتیں خوش بھی کرتی ہیں اور دکھی بھی۔ پھر یہ نادان گورے کالے کی تفریق میں کیوں گھائل ہیں؟ اتنے تضادات کیوں پال رکھتے ہیں؟

گھومتے گھومتے، میں پہنچا ایک ایسی سرزمین پر جو بظاہر معاشی طور پر تو کمزور ہے لیکن عام بندہ بھی یہاں ایسے رہتا ہے جیسے دیگر ممالک کے بادشاہ بھی نہیں رہتے۔ کھلے دل کے زندہ دل لوگ۔ جی ہاں، صحیح پہچانا آپ نے ‘پاکستان۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلے ہفتے پاکستان میں مٹھی بھر خواتین نے بہت شور مچایا کہ ’میرا جسم، میری مرضی۔‘ چند لوگوں نے اس نعرے کی تائید کی، اکثریت نے اس کو رد کیا۔ میں نے سوچا، میں بھی ان کو یاد دلا دوں کہ جس نے زندگی دی ہے، روح بھی اسی کی امانت، جسم بھی اسی کی امانت۔ آپ کی مرضی صرف آپ کے عمل کی حد تک ہے۔ اس عمل کا ثمر، خدا جانے، اس کی رضا جانے۔

یہاں کی سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ پوری دنیا کے برعکس مجھ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے میرا ہی شغل لگاتے رہے۔ پہلے تو حکومت نے بھی مجھے عام بیماریوں جیسا سمجھا اور محض تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا، گویا میں تعلیم حاصل کرنے سیدھا وہیں پہنچوں گا۔ ارے بھئی، مجھے تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی شوق ہوتا تو میں آج لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی بجائے کوئی اچھا کام نہ کر رہا ہوتا۔

اب پاکستان میں میرے حوالے سے ماحول سنجیدہ ہو چکا ہے۔ لوگوں نے پہلی مرتبہ حکومت کی تنبیہہ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس وقت کو پکنک منانے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اپنے بچوں کو ایک نیا ہنر سکھانے کا فیصلہ کیا ہے، اور وہ ہے، ’گھر بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا ہنر۔‘

پوری دنیا اپنی معیشت تباہ ہونے پر افسردہ ہے لیکن آفرین ہے پاکستان کے تجربہ کار سیاست دانوں پر، جنہوں نے پچھلے 40 سال شبانہ روز محنت کر کے احتیاطاً یہ کام پہلے ہی کر رکھا تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ مغربی تہذیب میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ’پاکستانی لوٹے‘ جن کو مشرق کی ایک مضحکہ خیز ایجاد تصور کیا جاتا تھا، ان کی مانگ مغرب میں لاکھوں میں ہو گی۔

کس نے سوچا تھا کہ میرے ڈر سے افریقی ممالک یورپ والوں کا داخلہ بند کریں گے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ میرا علاج ڈھونڈنے کے لیے پاکستان کے سیاست دان امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی بجائے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔ جس پاکستان کو یہ ترقی یافتہ ممالک کچھ سمجھتے نہ تھے، آج عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کی کارکردگی کو ان سب پر بازی دے دی۔

اور آخر میں اپنے وعدے کے عین مطابق میں بتاتا چلوں کہ میں آخر ہوں کون اور میرے آنے کا مقصد کیا ہے۔ تو دوستو! سنو۔ میں اللہ‎ کی بےآواز لاٹھی ہوں، جو پوری دنیا کو یہ بتانے آئی ہے کہ اصل طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ‎ کی ذات ہے۔ آج کروڑوں لوگوں کو میرے خوف سے گھروں میں بند ہونا پڑا تو یقیناً کشمیر میں محصور مظلوم بچے، بوڑھے اور جوان تو یاد آئے ہوں گے، ان کی بےبسی تو محسوس ہوئی ہو گی۔ جنگوں کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کی لاچاری تو یاد آئی ہو گی۔

میں تو ایک ادنیٰ سا وائرس ہوں۔ میرا شکار ہو کر تو انسان کو موت آنے کا امکان 3 فیصد ہے لیکن اچانک کسی بھی وقت موت آنے کا امکان 100 فیصد ہے، لہٰذا مجھ سے بچنے کی کوشش تو ضرور کیجیے لیکن مجھ سے زیادہ اپنے آپس کی بدسلوکی سے ڈریے، ایک دوسرے کا ناجائز طور پر دل دکھانے سے ڈریے۔ میں جتنی تیزی سے آیا ہوں، اتنی ہی تیزی سے چلا جاؤں گا، لیکن جاتے جاتے آپ سب کے لیے یہ سب قیمتی سوچیں چھوڑ جاؤں گا۔

اللہ‎ آپ سب کی حفاظت کریں اور جتنی رغبت سے آپ لوگ لذیز کھانے کھاتے اور کھلاتے ہیں، اتنے ہی شوق سے آپ لوگوں کو اپنے اپنے شعبوں میں محنت کرنے کی بھی توفیق دیں۔ آمین

والسلام،

کرونا وائرس

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ