کرونا کا مریض ہسپتال جانے تک کتنے کروڑ جراثیم پھیلا چکا ہوتا ہے؟

اس مضمون کا مقصد وہ سفر بیان کرنا ہے جو کورونا (کرونا) وائرس کسی کے جسم پر قبضہ جمانے کے لیے کرتا ہے۔

(اے ایف پی)

یار کرونا (کورونا) کس بلا کا نام ہے! بس ہوگیا ایک ہفتہ گھر پر قیام۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ چلو کسی دوست کی طرف چلتا ہوں۔ آپ اپنی طرف سے بڑی احتیاط کرتے ہوئے کسی کھلے پارک میں ملنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ محفوظ رہے گا۔ آپ تمام حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ سینٹائزر جیب میں رکھتے ہیں اور دوسروں سے کم از کم چھ فٹ کی دوری رکھتے ہیں اور سب سے مشکل چہرے کو ہاتھ نہیں لگاتے ہیں۔

جو بات آپ کو نہیں معلوم وہ یہ ہے کہ آپ کے دوست کے والد کسی کلب میں اپنے کاروباری ساتھی کے مہمان تھے۔ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہاں انہیں کسی کی اہلیہ کے کھانسے سے کرونا مل گیا۔ اس کے تین روز بعد انہوں نے اسی ہاتھ سے بیٹے کے لیے دروازہ کھولا جس میں وہ کھانسے تھے۔ کووڈ 19 کے مریض کے ایک چائے کے چمچ جتنے لعاب میں آدھ ٹرلین وائرس موجود ہو سکتے ہیں۔ کھانسی اس مقدار کو ہوا میں منتقل کر دیتی ہے۔ آپ کے دوست نے گھر داخل ہوتے ہوئے ایک سانس بھرا اور 32 ہزار وائرس ذرات ان کے منہ اور گلے میں جا بیٹھے۔

اس وقت سے یہ وائرس ان کے جسم کے اندر اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ جب وہ آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے تو اس کے گلے سے نکلی بلغم کی وائرس سے بھری چھوٹی بوندیں آپ کے ناک کے راستے آپ کے گلے میں آ بیٹھتی ہیں۔ جب تک آپ دوست کو خدا حافظ کہیں گے اس وقت تک آپ 43 ہزار سے زائد وائرس ذرات کے مالک بن چکے ہوں گے۔ اگر ہاتھ ملا لیا تو یہ تعداد تین لاکھ کی حد کو عبور کر چکی ہوگی۔

ان بوندوں میں سے ایک آپ کے پھیپھڑے پہنچ جاتی ہے اور اس کے گرم گیلی سطح پر براجمان ہو کر وائرس کو ٹشو کے گرد بلغم تک پہنچا دیتی ہے۔ ہر ذرہ گول ہے اور بہت چھوٹا ہے۔ اگر آپ انسانی بال کو ایک فٹ بال کے میدان جتنا بڑا تصور کریں تو اس میں وائرس محض چار انچ کا ہو گا۔ وائرس کی بیرونی جھلی ایک تیل کی پرت پر مشتمل ہے جس میں کنگری دار پروٹین مالیکیول ہیں جنہیں سپائیک پروٹین کہا جاتا ہے۔ یہ کرونا کی بنائی گئی تصویر کی طرح کسی گیند پر لگے اینٹنا لگتے ہیں۔ اس وائرس کے درمیان آر این اے، وائرس کا جینیاتی مواد ہوتا ہے یعنی اصلی بم۔

جیسے جیسے وائرس پھیپھڑے کی بلغم میں سے گزرتا ہے تو اس کی سطح پر ایک خلیے سے ٹکراتا ہے۔ یہ خلیہ وائرس سے بڑا ہوتا ہے۔ فٹ بال کے میدان کے اعتبار سے 26 مربع فٹ۔ اربوں سال کے ارتقا نے اسے حملہ آورں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ لیکن اس کی ایک کمزوری بھی ہے۔ اس کی سطح سے اینجیوٹینسن نامی پروٹین نکلا ہوا ہوتا ہے جو اینزائم 2 یا ایس 2 ریسیپٹر کو کور کرتا ہے۔ عموما یہ مالیکیول جسم میں ہارمونز کی سرگرمی کو چلاتے ہیں۔ آج یہ کرونا وائرس کے لیے لنگر کا کام کرے گا۔

وائرس خلیے سے چپک جاتا ہے۔ وائرس کی جھلی پھر سیل کی جھلی کے ساتھ مل جاتی ہے اور آر این اے کے مواد کو پھیپھڑوں کے سیل میں داخلہ کر دیتی ہے۔ وائرس اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ اب وائرس کا آر این اے مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ آر این اے نئے میزبان خلیے پر قبضہ کر لیتا ہے۔

اس طرح ایک ایک کرکے ہر خلیے میں یہ گھس کر اسے ہائی جیک کر لیتا ہے۔ اس اندازے سے کہ یہ وائرس اپنے رشتہ دار سارس کی طرح رویہ دکھاتا ہے، یہ انفیکشن ایک دن لیتا ہے اور اس وائرس کو لاکھوں کی تعداد میں پھیلا دیتا ہے۔ وائرس کے ذرے بلغم میں آ جاتے ہیں، خون میں داخل ہوتے ہیں اور نظام ہضم تک پہنچ جاتے ہیں۔

آپ کو اس دوران کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ دراصل، آپ ابھی بھی معمول کے مطابق محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی شکایت ہے تو وہ بور ہونے کی ہے۔ آپ ایک اچھے شہری ہیں اور سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل کرتے ہوئے گھر پر رہ رہے ہوتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ گھر سے نہ نکلے تو ذہنی امراض کا شکار ہو جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ کسی اور دوست کو فون کرتے ہیں اور وہ آپ سے واک پر ملنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ آپ اس سے ملتے ہیں اور ہاتھ تو نہیں ملاتے لیکن اس کی جیکٹ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ اس سے آپ تقریباً نو لاکھ وائرس کے ذرات چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ واپس گھر لوٹتا ہے جیکٹ ہینگر پر لٹکاتا ہے اور ہاتھ دھونے سے قبل اپنے ناک کے نیچے خارش کرتا ہے۔ پانچ دن میں اسے ایک ایمبولینس قریبی ہسپتال لے جاتی ہے۔

گھر پر آپ کے خون میں خلیوں کی موجودگی کو بھانپتے ہوئے آپ کا مدافعتی نظام کچھ گڑبڑ محسوس کرتا ہے۔ خون کے سفید خلیے مردہ خلیوں کے ذرات دیکھتے ہی سائٹوکائن نامی کیمیائی مواد چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ الارم ہوتا ہے، جس کو محسوس کر کے جسم کے دیگر مدافعتی حصے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ آپ کے جسم میں ایک جنگ چھڑ جاتی ہے۔ آپ کا مدافعتی نظام دشمن پر حملہ کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے جنگ چلتی ہے ویسے ویسے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور متاثرہ حصے میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔

دو روز بعد کھانے کے خیال سے ہی آپ کو متلی آنے لگتی ہے۔ آپ گھنٹوں سو جاتے ہیں۔ جب آپ اٹھتے ہیں تو آپ اپنی طبعیت زیادہ خراب محسوس کرتے ہیں۔ آپ کا سینہ سخت ہو جاتا ہے اور آپ کو نہ بند ہونے والی خشک کھانسی ہونے لگتی ہے۔ آپ تھرمامیٹر لگاتے ہیں اور ایک منٹ بعد آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ٹمپریچر 102 ہے۔ آپ واپس بستر میں یہ کہتے ہوئے لیٹ جاتے ہیں کہ یہ معمول کا فلو ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ تو نوجوان ہیں لہٰذا خطرے والوں میں آپ نہیں آتے۔

آپ ایک حد تک درست سمجھ رہے ہیں۔ کرونا وائرس سے متاثرہ اکثر افراد بس یہیں تک جاتے ہیں۔ آرام سے وہ بہتر ہو جاتے ہیں۔ لیکن بعض ایسی وجوہات جن کی سائنس دانوں کو سمجھ نہیں آتی 20 فیصد افراد کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ آپ کی نوجوانی کے باوجود وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔

چار دن کے تیز بخار اور دکھتے جسم کے بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کبھی اتنے بیمار نہیں ہوئے۔ آپ کی کھانسی آپ کو اتنا شدید دھچکہ دیتی ہے کہ آپ کی کمر دکھ جاتی ہے۔ آپ گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور قریبی ہسپتال کی ایمرجنسی پہنچ جاتے ہیں۔ (آپ 37 کروڑ سے زائد وائرس کے ذرات فضا اور گاڑی میں چھوڑ دیتے ہیں۔)

ہسپتال میں آپ کا جائزہ لیا جاتا ہے اور آپ کو آئسولیشن وارڈ روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کے کرونا ٹیسٹ کے نتائج کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے پھیپھڑوں کا سی ٹی سکین کرتے ہیں اور سب دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کو نہ صرف کووڈ۔19 ہے بلکہ یہ سبب بنتا ہے زیادہ سنگین نمونیہ کا جسے ایکیوٹ رسپائریٹری ڈسٹریس سینڈروم یا اے آر ڈی ایس کا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت