عائشہ مغل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وفاقی افسر کیسے بنیں؟

عائشہ مغل وزارت برائے انسانی حقوق میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کر رہی ہیں، جنہوں نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی عائشہ مغل نے پاکستان میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا مقابلہ کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔

عائشہ وزارت برائے انسانی حقوق میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں صنفی حساسیت پر ورکشاپس منعقد کرواتی ہیں۔

عائشہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی جس کے بعد حکومت پاکستان دنیا کی پہلی ایسی حکومت بن گئی ہے جس نے ایک خواجہ سرا کو جینیوا بھیجا تھا۔

اپنے اس سفر کے بارے میں عائشہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے میٹرک تک تعلیم عمان میں حاصل کی اور جب ہم پاکستان آ گئے تو میں نے یہاں بی بی اے اور پھر ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔‘

لیکن بقول عائشہ زمانہ طالب علمی ان کے لیے آسان نہ تھا اور وہ لڑکوں کا روپ اپنا کر رہتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے زنانہ انداز کی وجہ سے دوست بنانے میں بہت مشکل ہوتی تھی اور ان کے ارد گرد کے لوگ انہیں طعنوں اور مذاق کا نشانہ بناتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 عائشہ نے بتایا: ’یہی وجہ ہے کہ میری عمر کے خواجہ سرا زیادہ تر تعلیم یافتہ نہیں ہیں جبکہ کئی خواجہ سرا مردوں کا روپ اپنا کر نوکری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’کوئی مرد یا عورت آپ کا دوست نہیں بننا چاہتا۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھر کے اندر خواجہ سرا آئیں یا وہ کسی خواجہ سرا کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مثبت تبدیلی آ رہی ہے لیکن آج سے دس سال پہلے یا پانچ سال پہلے تو یہ آگاہی بھی نہیں تھی۔‘

عائشہ نے بتایا: ’میں شروع سے ہی اپنے آپ کو ایک لڑکی سمجھتی تھی لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہوئی تو پتہ چلا کہ میں لڑکی نہیں ہوں بلکہ میں خواجہ سرا ہوں۔ میری روح ایک عورت کی ہی تھی۔ لیکن آپ پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔ معاشرے کا، گھر والوں کا، جو آپ سے ہر وقت کہتے ہیں کہ مرد بنو، مردوں کی طرح بیٹھو، مردوں کی طرح چلو، مردوں کی طرح سارے کام کرو۔‘

انہوں نے بتایا کہ گھر والوں سے تو ان کے تعلقات پھر بھی اچھے ہیں، لیکن کئی رشتہ دار ابھی بھی صنفی شناخت کی وجہ سے ان کی تذلیل کرتے ہیں۔

’اس لیے میں اکیلی رہتی ہوں۔ میرے کچھ ایسے رشتہ دار بھی ہیں جنہوں نے میرے والدین کو تنگ کیا۔‘

عائشہ نے بتایا کہ اپنی مرضی کی زندگی جینے کے لیے انہوں نے ایک سمجھوتا کیا اور اپنے گھر والوں کا کہا مانا۔

’میرے گھر والوں نے کہا تھا کہ مجھے لڑکا بن کر ہی نوکری کرنی ہوگی کیونکہ اگر میں بتاتی کہ میں خواجہ سرا ہوں تو میرے گھر والے مجھے  عاق کر دیتے۔ اس لیے مجھ پر دباؤ تھا، مگر میں نے سوچا نہیں تھا کہ جب میں سب کو اپنی اصل صنف بتاؤں گی تو مجھے اتنی عزت ملے گی۔'

انہوں نے بتایا: 'جب میں قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھایا تو مجھے پہلی خواجہ سرا لیکچرر کے طور پر قومی سطح پر سراہا گیا۔ جب میں نے وزارت برائے انسانی حقوق میں کام کیا تب بھی مجھے عزت ملی کہ پہلی خواجہ سرا وفاقی حکومت میں کام کر رہی ہیں۔‘

جب عائشہ کا نیا شناختی کارڈ بنا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ انہوں نے بتایا: ’جب قانون پاس ہوگیا تو میں نے اپنے شناختی کارڈ پر اپنا نام بدلوایا۔ 29 سال بعد مجھے میری اصلی شناخت ملی۔'

عائشہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت پر امید ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’اب کافی حد تک سب کچھ بہتر ہے۔ میں گھر جاتی ہوں، میری امی مجھ پر فخر محسوس کرتی ہیں، میری کامیابیوں کو دیکھتی ہیں، مجھے ٹی وی پر دیکھتی ہیں تو خوش ہوتی ہیں۔ میرے باقی رشتہ دار بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔'

بقول عائشہ: 'میں نے اپنی زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ آپ جو بھی ہیں آپ اسے تسلیم کریں۔ آپ کو معاشرے سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ لوگ جس کو آج برا کہتے ہیں کل وہی لوگ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے