پاکستان  کی پہلی خواجہ سرا ’دی گالاز ایوارڈ‘ کے لیے منتخب

 ’دی گالاز ایوارڈز‘ کے نام سے مشہور یہ تقریب آٹھ فروری کی شام آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ہوگی جس میں دنیا بھر سے رینبو کمیونٹی سمیت اس کے معاون اداروں اور کمپنیوں کے افراد بھی شریک ہوں گے۔

نایاب علی نے بتایا کہ زندگی میں ان کے لیے سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب کچھ نامعلوم لوگوں نے ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تھا۔(سوشل میڈیا)

 خواجہ سرا نایاب علی پاکستان سے تعلق رکھنے والی وہ پہلی شخصیت ہوں گی جنہیں آئر لینڈ کے سالانہ ایل جی بی ٹی پلس  ایوارڈ کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ نایاب علی ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔

یہ ایوارڈ انہیں پاکستان میں خواجہ سراؤں کے مسائل پر کام کرنے کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے۔

 ’دی گالاز ایوارڈز‘ کے نام سے مشہور یہ تقریب آٹھ فروری کی شام آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ہوگی جس میں دنیا بھر سے رینبو کمیونٹی سمیت اس کے معاون اداروں اور کمپنیوں کے افراد بھی شریک ہوں گے۔

اس ایوارڈ کے لیے امیدواروں کی نامزدگی تین ادارے کیا کرتے ہیں جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، فرنٹ لائن ڈیفینڈرز اور نیشنل ایکس فاؤنڈیشن  شامل ہیں۔

ان اداروں نے اس سال پوری دنیا سے چار لوگوں کو نامزد کیا ہے جن کا تعلق برازیل، قازقستان، کرغزستان  اور پاکستان سے ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں نایاب علی نے کہا کہ ’یہ ایوارڈ  محض پیتل سے تیار کیا گیا ایک ڈیزائن نہیں ہے جس سے کسی کو نواز کر ایک رسم پوری کی جائے بلکہ یہ  دکھ بھری مشکل زندگی میں امید کی شمع جلائے رکھنے کی قدر شناسی ہے۔ ہار کر بھی ہار نہ ماننے کی شاباشی ہے اور ہر بار گرنے کے بعد دوبارہ سے اٹھ کر زخم آلود روح کے ساتھ جینے کی قسم کھانے کی داد ہے۔ بھلا ہو  ایسوں کا جو ایسے لوگوں کو تھام سکیں۔ ‘

نایاب علی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد شاید لوگ ان سے مزید نفرت کرنے لگیں گے۔ یہ سوچے بغیر کہ ایوارڈ کیوں ملتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہر ایوارڈ کے پیچھے کوئی کہانی ہوتی ہے۔ اور میری کہانی کچھ یوں ہے کہ  وہ بچہ جو ہر رات سہم کر ماں کے سینے سے لگ کر اس سے الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا اسے تیرہ سال کی عمر میں والد معاشرے کے خوف سے گھر سے نکال دیتا ہے۔ ماں تو ماں ہے، وہ احتجاج کرتی ہے تو اس کو طلاق کی دھمکی دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ جسمانی تبدیلیوں کے ادراک اور خون کے رشتوں کی جانب سے لاتعلقی کے اظہار کے ساتھ اور پھر  بے قصور ہوتے ہوئے بھی معاشرے میں قصوروار بن کر کس طرح جیتا ہوگا ایسا شخص؟ ۔یہ کبھی کسی نے سوچا نہیں ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران نایاب علی ہنس دیں۔ اس ہنسی میں تلخی، درد، طنز اور نہ جانے کیا کچھ شامل تھا۔ جیسے وہ ہر کسی سے ناراض ہوں  لیکن پھر بھی اپنے تئیں کچھ ظاہر نہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’والد نے گھر سے نکالا تو نانی نے سہارا دیا۔ نانی کے گھر سے میں نے  اپنی تعلیم جاری رکھی۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اکثر لوگ تنگ کیا کرتے تھے۔ اسی ’بُلی اینگ‘ کے ساتھ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے  باٹنی میں بی ایس آنرز اور حال ہی میں اسلام آباد کی پرسٹن یونیورسٹی سے آئی آر میں ایم اے کیا۔‘

نایاب علی نے بتایا کہ زندگی میں ان کے لیے سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب کچھ نامعلوم لوگوں نے ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تھا۔

’میرا چہرہ تو بچ گیا لیکن میری گردن اور ٹھوڑی کے ارد گرد کی جگہ جل گئی جس کا علاج تاحال جاری ہے۔ یہ سب صرف اس لیے ہوا کہ میں خواجہ سرا ہوں اور میں اپنے مسائل کو بہتر سمجھتے ہوئے اپنی کمیونٹی کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہی ہوں۔ میں 17 سال کی تھی جب میں نے خواجہ سراؤں کے مسائل اجاگر کرنے پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ تقریباً دس سال ہو گئے ہیں مجھے بطور ایکٹوسٹ کام کرتے ہوئے۔‘

نایاب کے مطابق وہ  پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی پارٹی کے ٹکٹ پر اپنے شہر اوکاڑہ سے 2018 میں الیکشن بھی  لڑا۔ جس میں انہیں 1197 ووٹ ملے۔ 

نایاب علی کا کہنا تھا کہ کیسا سفاک معاشرہ ہے جو بچوں کو اپنے والدین سے جدا کر دیتا ہے۔ ’کوئی خواجہ سرا کبھی گھر سےنہ بھاگتا اور نہ نکالا جاتا اگر معاشرے کا رویہ ہمارے ساتھ اس قدر ظالمانہ نہ ہوتا۔ ہمارے لیے صرف ناچنے کی گنجائش نہ بچتی اگر ہمیں سکول اور مختلف دوسرے پیشوں میں تنگ نہ کیا جاتا۔ جب گھر والے بھی چھوڑ دیں اور آپ کے پاس زندہ رہنے کے لیے کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسے میں ہار مان کر مر جانے سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ناچ لیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک تمغہ وہ میرے منہ پرتیزاب پھینک کر سجا چکے ہیں، صرف اس وجہ سے کہ میں ایک خواجہ سرا ہوں۔ اور اپنی تکالیف، دکھ درد اور مشکلات سے گزر کر میں نے اپنے جیسے دوسرے خواجہ سراؤں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔

نایاب علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مستقبل میں ملنے والا یہ ایوارڈ ان کی تکالیف، دکھ اور درد میں بیتے سالوں کا مداوا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان