پرانی گاڑیاں، مست ماحول تے مٹھے چول

باہر سے دیکھیں گاڑی، لمبی اتنی کہ پانچ مرتبہ گاڑی کے گرد گھومیں اور واک ہو جائے شام کی، یہ موٹے شیشے کی ونڈ سکرین، کلک کی سریلی آواز سے بند ہونے والے دروازے، آج کل آپ سوچ سکتے ہیں کہ سٹئیرنگ گھمائیں اور گاڑی کی ہیڈ لائٹ بھی ساتھ گھومے؟

(پکسابے)

ہائے ہائے کیا ویہلا وقت ہے، وہ وہ چیزیں یاد آ رہی ہیں جو چوی گھنٹے کی بھاگ دوڑ میں بالکل کھڈے لائن لگی ہوئی تھیں۔ پرانی گاڑیوں کا جنون کی حد تک شوق تھا بھائی کو، جب خریدنے کے قابل ہوا تو پتہ لگا کہ انہیں پالنا تو آسان ہے لیکن کھلانا بہت مشکل ہے۔ چپ کر کے جو اپنے بجٹ میں آئی، وہ لی اور سائیڈ پہ ہو گیا۔

لیکن یار، ایک ٹچ ہوتا ہے، پرانی گاڑیوں میں، انٹیک گاڑیوں میں، وہ اسے سمجھ آ سکتا ہے جو ان کا ٹھرکی ہو۔ یہاں شوق کا لفظ استعمال ہو سکتا تھا لیکن ٹھرک ایک آفاقی کیفیت ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ ایک چیز آپ کی اوقات میں ہے ہی نہیں، آپ اسے اس زندگی میں کبھی پا ہی نہیں سکتے، اس کے خواب دیکھ کے بھی آپ کو شرمندگی ہوتی ہے، لیکن اگر اسے سامنے دیکھ کر اور اس کے بارے میں سوچ کر آپ شدید قسم کا للچاتے رہتے ہیں تو یہ شوق نہیں ہے یہ ٹھرک ہے، اور پرانی گاڑیوں کے بارے میں اپنی بس یہی کیفیت ہے۔ 

محسوس کریں کہ آپ جس گاڑی میں بیٹھے ہیں اس کا انٹیریر سارا ووڈن ہے، لکڑی جیسی فنشنگ ڈیش بورڈ کی ہے، سائیڈوں میں دروازوں پر بھی اسی طرح کا سارا کام ہے، سیٹیں سفید رنگ کی ہیں، گاڑی کی چھت بھی سفید لیدر کی ہے، باہر سے گاڑی کا رنگ فیروزی ہے، بمپر اور گاڑی کی لائٹوں کے کورز لشکتے ہوئے سٹیل کے ہیں، لائٹیں بذات خود مینڈک کی آنکھوں جیسی ہیں اور بونٹ یہ لمبا جا رہا ہے، ڈکی ہے تو اس میں چھ لاشیں برابر رکھی جا سکتی ہیں، پیچھے والی بتیاں کچھ بیضوی  سی ہیں اور ان کے دونوں کونے ایسے تیز ہیں کہ بندہ شاپر اوپر سے گزارے تو پھٹ جائے، سبحان اللہ، پورا ماحول بنا ہوا ہے۔ اندر ایک ریڈیو ہے جس کے دو موٹے موٹے ناب ہیں۔ پہلے کو گھمائیں تو فریکوئنسی کی سوئی آگے پیچھے جاتی ہے اور دوسرا آواز کے لیے ہے۔ آپ سوئی گھماتے ہیں، آواز کھولتے ہیں اور ایلوس پریسلے کے گانے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کوئی شدید بے چین روح ہیں اور دوبارہ ناب گھماتے ہیں تو وہ چلنا شروع ہو جاتا ہے، جند ماہی باج تیرے پچھتائیاں، او جند ماہی باج تیرے، اگر آپ بالکل ہی آج کل کے ہیں تو دھرتی سنہری امبر نیلا، ہر موسم رنگیلا، ایسا دیس ہے میرا، وہ چلا لیں، اب نئیں مزید گھما سکتے۔ تو آپ سکون سے گانا سننا شروع ہو جاتے ہیں۔

اب فوکس کریں سامنے کتنے سارے ڈائل لگے ہوئے ہیں۔ ہائے، رفتار دکھانے والی سوئی کے ساتھ ابھی کلومیٹر کی بدعت شروع نہیں ہوئی، وہ آپ کو میل گھنٹہ بتا رہی ہے، گاڑی کی حد رفتار نوے میل فی گھنٹہ ہے، کل تین گئیر ہیں، بدلیں اور ٹھنڈ ماحول میں سامنے باقی میٹرز کا جائزہ لیں۔ گاڑی کیا ہے کسی جہاز کے اندر کاک پٹ والا سین ہے۔ سپیڈ کا تو ہے ہی ہے، انجن کی رفتار بتانے کی الگ سوئی ہے، تیل کی الگ سوئی ہے، انجن کے پانی کا الگ گول میٹر ہے، ساتھ ہی گھڑی کا ڈائل ہے، وہیں پہ بیٹری کا وولٹیج میٹر ہے، ایک آئل پریشر گیج ہے، اب جدید گاڑیوں کے دور میں آئل پریشر کی سائنس سمجھنے کی ضرورت کیا ہے، مٹی پائیں اور آئیں دوبارہ اندر، مزے کی بات یہ ہے کہ ڈیش بورڈ بالکل سلیک سا ہے۔ سلیک بولے تو نفاست سے بنا ہوا، نازک سا، جتنی ضرورت ہو سکتی ہے اتنا، یہ نہیں کہ آپ کی گردن تک گاڑی کا انٹیرئیز چڑھا ہوا ہے۔ پھر اگر ووڈن نہیں ہے تو رتا لال بھی ہو سکتا ہے، کریم ہو سکتا ہے، سفید ہو سکتا ہے، اور چمکتا ہوا لش پش، پھر یہ پسند نہیں تو نرم چمڑے جیسی فنشنگ بھی ہو سکتی ہے، مطلب اخیر لگژری ہے یار۔ آج کل پلاسٹک ہے نرا، انگلی سے ٹھوکیں، ٹک ٹک کی آواز آئے گی، تب ایسا تھوڑی تھا! خیر جان دوس! 

باہر سے دیکھیں گاڑی، لمبی اتنی کہ پانچ مرتبہ گاڑی کے گرد گھومیں اور واک ہو جائے شام کی، یہ موٹے شیشے کی ونڈ سکرین، کلک کی سریلی آواز سے بند ہونے والے دروازے، آج کل آپ سوچ سکتے ہیں کہ سٹئیرنگ گھمائیں اور گاڑی کی ہیڈ لائٹ بھی ساتھ گھومے؟ بعض کیسوں میں ایسی ہیڈلائٹیں، ٹائروں کے اوپر الگ سے ایک سفید پٹی بنی ہوئی، بعض اوقات آدھا ٹائر گاڑی کی باڈی کے اندر گم، گاڑی کا پیچھے والا شیشہ دوکھڑکیوں میں بٹا ہوا، دور سے دیکھیں تو لگے کہ جیسے کسی نواب کی سواری ہے اور پاس آ کے دیکھیں تو بھی ۔۔۔ واللہ پاس سے بھی وہی نوابی ٹھاٹھ ہیں، امیجری ختم ہو گئی بھائی کی، گاڑی ختم نہیں ہوئی۔ انجن پہ نظر مار لیں۔ گنتی کی موٹی موٹی چیزیں، دو مہینے مستری کے ساتھ لگا لیں تو قسمے سب کچھ سمجھ آ جائے، آج کل کی گاڑیاں کم بخت جب تک کمپیوٹر نہ جوڑیں کچھ سمجھ میں نہ آئے۔ پرانی گاڑیوں کے مرض بھی سادہ تھے۔ گرم ہے تو ریڈی ایٹر لیک ہو گا، ٹھنڈی ہے تو بیٹری بیٹھ گئی ہو گی یا جنریٹر خراب ہو گا، نئی میں تو بھائی وہ ٹائم قریب ہے کہ گاڑیوں کو بھی الرجی ہوا کرے گی۔ یہ دیکھیے گا بھائی، ڈسٹ زیادہ تھی فلاں سڑک پہ، گاڑی بند ہو گئی ہے، یا پھر، بارش کی زیادتی سے آج لال کرتی میں تین گاڑیوں کو زکام ہو گیا ٹائپ کی خبریں آئیں گی۔ پانچ سال کے بعد یہ منحوس ختم ہو جاتی ہیں، وہ پچاس سال بعد بھی دھکا ماریں گے تو سٹارٹ ہو جائیں گی، یہ فرق تھا بس مہربان! 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیر وہ تو وقت ہی اور تھا۔ تب کرونا صرف گاڑی یا بیئر کا نام ہوتا تھا اور کوانٹائن نام کے لوگ پرانی گاڑیوں پہ کتابیں لکھا کرتے تھے۔ اب نہ وہ خوراکیں رہ گئیں ہیں نہ وہ گاڑیاں، نرا پھوک ہے۔ ایکسکیوز می! کل کو مجھ سے بندے سوال کریں گے کہ فلاں کالم میں تو آپ کہہ رہے تھے کہ پرانی گاڑیاں اچھی ہوتی تھیں اور پرانی خوراک اچھی ہوتی تھی اور اب لکھ رہے ہیں کہ پرانا دور اچھا نہیں تھا، سہولتیں زیادہ نہیں تھیں، گاڑیاں پیٹرول زیادہ کھاتی تھیں، بندے چکنائی کی وجہ سے مر جاتے تھے، وغیرہ وغیرہ تو جان عزیز۔۔۔ ہر کالم کا ایک موڈ ہوتا ہے۔ جیسے ہر شاعر کا ایک موڈ ہوتا ہے۔ اب کوئی شراب پہ مکمل غزل کہہ دے تو ضروری نہیں ہوتا کہ وہ فل ٹائم شرابی ہو، کوئی طبلے کی تال پہ پورا بیٹھنے والا گانا لکھ دے تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے یس پروگرام کر رہا ہو، اسی طرح جب پرانی گاڑیوں کا ذکر آئے تو فقیر کے لیے ماحول ایسا ہوتا ہے جیسے ٹائلوں والے فرش پہ موبل آئل گر گیا ہو۔ ذرا سا پھسلے نہیں تے او پیا جاندا ای گڈیاں دا ڈنگیا، عیاش مکڑا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ