آٹومیٹک زندگی میں اپنا ہاتھ کیسے اڑاؤں؟

یہ اس لمحے کی کہانی ہے کہ جسے تم ٹھوس انکار کی نظر سے دیکھتے ہو، وہ جب ہونے پہ آئے تو سب ہوتا چلا جاتا ہے اور بندے کی ساری بریکیں فیل ہوتی جاتی ہیں۔ وہ بہتری کے لیے ہو، برے کے لیے ہو، وہ تو ہونا ہے۔

آسمان سارا اپنی پراپرٹی ہے۔ چیل، کوے، چڑیاں، کبوتر، کوئل، پتنگیں، جہاز، ستارے، سورج، چاند سب کچھ وہاں سے نظر آ جاتا ہے، چوبیس گھنٹے اذانوں کی آوازیں آتی ہیں، دیوار پہ چڑھ جاؤ تو پورا محلہ جھانک لو، کسی نے دیکھ لیا تو گھر شکایت کرنے بھی آ جائے گا۔(تصویر:گوگل میپ)

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنا پہلا گھر چھوڑوں گا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کے مجھے اس گھر کے دروازے پہ کھڑا کر دو تو میں غلام گردش تک بغیر کسی چیز سے ٹکرائے چلا جاؤں گا۔

دیکھو، سب سے پہلے چھوٹا سا گیراج آئے گا جس میں ایف ایکس سوزوکی جتنی جگہ ہو گی۔ ذرا سا آگے نکلتے ہی کھلا صحن ہو گا جس میں سردی گرمی برابر تیکھی دھوپ پڑتی ہو گی۔ پیلے رنگ کی دیواریں ہوں گی۔ چڑیاں، کوے، موٹے چیونٹے، چھوٹی چیونٹیاں اور رنگ برنگی بلیاں بھی اس گھر پہ اپنا حق اتنا ہی رکھتی ہوں گی جتنا وہاں رہنے والوں کا تھا۔ خیر تو بس صحن کراس کرتے ہی ایک برآمدہ آئے گا۔ اس کی اونچائی صحن سے تھوڑی زیادہ ہے۔ تو آنکھوں پر بندھی پٹی کے ساتھ مجھے کوئی سات انچ پیر اوپر اٹھانا ہو گا اور یہ آ گیا برآمدہ۔

ادھر ایک طرف واش بیسن لگا ہوگا۔ سامنے دو کمرے ہوں گے۔ دونوں کمروں کی باہر کھلنے والے کھڑکیاں لکڑی کی بنی ہوں گی اور ان پر وہی میل خورا سا براؤن پینٹ کیا ہوگا جو پرانے زمانے میں مڈل کلاس کی پہچان ہوتا تھا۔ دروازے بھی اسے رنگ کے ہوں گے۔ اگر مجھے گھر کے اندر بھیجنا ہی ہے تو اس وقت بھیجنا جب وہاں کمروں میں کچی اینٹوں کا فرش تھا۔ وہ جس پر پانی کے چھڑکاؤ سے عجیب طرح کی خوشبو آتی تھی، وہ بھی شاید سونگھنے کو مل جائے۔ تو بس میں اس کمرے سے گزروں گا، نہ دادی کے تخت سے ٹکراؤں گا، نہ دادا کا پلنگ راستہ روکے گا، سیدھا غلام گردش میں جا کے کھڑا ہو جاؤں گا۔ وہاں سے اوپر آسمان کو دیکھوں گا۔ وہ جو دو گھر چھوڑ کے پٹھان کبوتر اڑایا کرتا تھا، اس کے کبوتروں کی ٹولی اوپر سے گزرے گی تو حساب لگاتا رہوں گا کہ میں انہیں کیسے پکڑوں۔

پھر غلام گردش سے جب میں نکلوں گا تو وہیں موجود دوسرے دروازے سے امی ابو کے کمرے میں جاؤں گا۔ ادھر دو فولڈنگ پلنگ ایک دوسرے کے آگے پڑے ہوں گے۔ ساتھ نہیں، لمبائی کے رخ میں آگے پیچھے، فرش پر موٹا پلاسٹک بچھا ہو گا اور الماری میں ایک خانہ ایسا ہو گا جہاں سے آج بھی خواب میں چاکلیٹیں اور ٹافیاں مجھے ملتی رہتی ہیں۔ اب اجازت ہے؟ شرط پوری ہو گئی؟ باقی گھر مجھے پٹی اتار کے گھومنے دو؟

میں بارہ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جاؤں گا۔ سامنے وہ کمرہ ہو گا جہاں زندگی کے بیس سال میں نے گزارے تھے۔ ٹی آئرن کی چھت ہوگی، چاروں طرف سے ڈائریکٹ سورج کی زد میں وہ کمرہ گرمیوں میں فل تپ جاتا ہوگا اور سردیوں میں شدید یخ ہوتا ہو گا لیکن موسم جیسا بھی ہوا، میں پہلے کی طرح بے غم اس میں گھس جاؤں گا۔ دروازے کے سامنے ایک الماری ہوگی۔ اس کے چھ خانے ہوں گے، سب سے نیچے والے پہلے خانے میں سارے خاندان کے پرانے البم ہوں گے، ساتھ ابا کے پوسٹ کارڈ اور ٹریول گائیڈز والے پمفلٹ رکھے ہوں گے۔ دوسرے خانے میں میرے رسالے اور چھوٹی موٹی کہانیوں کی کتابیں ہوں گی۔ درمیان والے دو خانوں میں سے ایک کے اندر میری کیسٹیں ہوں گی اور دوسرے میں ڈاک ٹک کے البم، سکے اور ماچسیں ٹھنسی ہوں گی۔ اوپر والے دو خانوں میں سے ایک میں ابا کے انگریزی ناول ہوں گے اور دوسرے خانے میں وہ ساری چیزیں جو میں چھوٹے بھائی کی پہنچ سے دور رکھنا چاہتا ہوں، وہ سب وہیں پڑا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہاں سے نکلوں تو کمرے کی دیواروں کو دیکھوں۔ ان پہ ہلکے سبز رنگ کا پینٹ ہو گا۔ ڈیمی مور، مادھوری اور مدھو بالا کے پوسٹر ہوں گے، کہیں کہیں وہ کارڈ بھی چپکے ہوں گے جو سالگرہ یا نئے سال پہ دور دراز سے آتے تھے۔ دروازے کے بالکل ساتھ پلاسٹک کی وہ الماری بھی تو کھڑی ہے جو سٹیل کے راڈز پر خیمے کی طرح تانی جاتی تھی۔ آج بھی خواب میں اسی کے اندر سے لاتعداد ایسی شرٹس نکلتی ہیں جو میں نے کبھی پہنی تک نہیں ہوتیں۔ پھر دروازے کے سیدھے ہاتھ پر وہ چار کھڑکیوں کے پٹ ہیں جو سردی گرمی صرف موسم کی شدت بڑھانے میں اپنا فرض ادا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ والی دیوار میں دو جھروکے ہیں جن پر سیمنٹ کی جالیاں لگی ہیں اور جن کے پٹ ہارڈ بورڈ کی سلائیڈنگ شیٹس ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اسی کمرے میں دو روشن دان بھی ہیں۔ ایک روشندان سدا کا بند ہے۔ اس کا ایک شیشہ ایسے لگتا ہے جیسے اس پر رکھ کے باہر چھت پہ کسی نے مرغی ذبح کی ہو، عجیب سا داغ ہے جو بارشوں سے بھی نہیں جاتا، خیر! وہ ٹیوب لائیٹ کے نیچے لکڑی کا ایک سفید ریک ہے۔ ایک سنگل پھٹہ سا ہے دیوار سے جڑا ہوا۔ اس پہ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈ رکھا ہے اور سپیکر اس کے دیوار پہ ٹنگے ہیں۔ کمرے میں بیڈ موجود ہے لیکن نشست فرشی ہے۔ بڑے مزے ہیں۔

باہر چھت ہے۔ وہی پیلی دیواریں ہیں۔ آسمان سارا اپنی پراپرٹی ہے۔ چیل، کوے، چڑیاں، کبوتر، کوئل، پتنگیں، جہاز، ستارے، سورج، چاند سب کچھ وہاں سے نظر آ جاتا ہے، چوبیس گھنٹے اذانوں کی آوازیں آتی ہیں، دیوار پہ چڑھ جاؤ تو پورا محلہ جھانک لو، کسی نے دیکھ لیا تو گھر شکایت کرنے بھی آ جائے گا۔ ابھی تک کتنی ہی بار خواب میں دیکھا ہے کہ ساتھ والے گھر کی چھت سے بچے دیوار پھلانگ کے میرے کمرے میں آ گئے ہیں اور میں دروازہ کھولتا ہوں تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔ کس چیز کی ان سیکیورٹی ہے؟ وہ ٹکٹ چرا لیں گے؟ البم یا کارڈ؟ یا دیواروں پہ لگے پوسٹر؟ آؤ چلو نیچے اتریں۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنا گھر چھوڑوں گا۔

چھوڑنا پڑا۔ میں سوچتا تھا کہ ماں باپ سے الگ ہو کے بندہ رہ کیسے سکتا ہے؟ ممکن ہی کیسے ہو گا کہ امی ابو کہیں اور ہوں اور میں کہیں اور جا کے رہ لوں، وہ بھی ہو گیا۔ پچیس سال ماں باپ کے ساتھ گزارنے کے بعد سال میں پچیس دن ان کے ساتھ نہیں گزر پاتے۔ پھر شادی کے بعد آدمی گھر بار کا ہو کے رہ جاتا ہے۔ لاتعداد تصویریں بیٹی کی کھینچیں، یہ میرا شوق ہوتا تھا، اس کا پورا بچپن ریکارڈ کیا۔ بیوی کے ساتھ زندگی کا بہترین وقت گزارا، کبھی ایک لمحے کو جو خیال بھی آیا ہو کہ یار ان سے الگ رہنا پڑے گا، سوال ہی نہیں تھا، دور دور تک نہیں تھا۔ نوکری کا مسئلہ تھا، بہتر روزی ملی، اس کے چکر میں ایک سال سے یہ بھی چل رہا ہے۔ کہاں مہینے میں ایک دن الگ نہیں ہوتا تھا، کہاں ایک دن کا ملنا ہوتا ہے۔ تو سب کچھ بس ہو جاتا ہے۔

دیکھو یہ سب مظلومیت کا رونا نہیں ہے، یہ تو اس لمحے کی کہانی ہے کہ جسے تم ٹھوس انکار کی نظر سے دیکھتے ہو، وہ جب ہونے پہ آئے تو سب ہوتا چلا جاتا ہے اور بندے کی ساری بریکیں فیل ہوتی جاتی ہیں۔ وہ بہتری کے لیے ہو، برے کے لیے ہو، وہ تو ہونا ہے۔ جب وہ ہونا ہے تو پھر تمہاری حیثیت کیا ہے؟ آنکھوں پہ پٹی باندھ کے پرانے گھر میں گھومتے رہو یا چھ کنال کا نیا بنگلہ بنا لو، رہنا تو وہیں ہے جہاں رکھے جاؤ گے۔ آج بنا لو بھائی آج، جو کچھ بنانا ہے آج اور ابھی بنا لو! کل مجھے پتہ ہوتا کہ اتنا سفر قسمت میں ہے تو میں پیروں کو زنجیر ڈال کے وہیں پہلے گھر میں کیل کے ساتھ گڑا بیٹھا ہوتا۔

نہیں ہوتا، کل کا پتہ کچھ نہیں ہوتا۔ کل اس پہ چھوڑ دو جس نے گزرا ہوا کل گزارا ہے۔ ابھی کیا کرنا ہے یہ فیصلہ کرو۔ جب ایک بار فیصلہ ہو جائے تو بابا دے مار ساڑھے چار! جب سب کچھ آٹومیٹکلی ہونا ہے تو کہیں تھوڑا سا مرضی کا احساس تو ہو، لگے تو سہی کہ اپنا ہاتھ بھی اڑایا ہے؟ کیا خیال ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ