لوگ اردو کیوں پڑھیں گے؟ یہ تو ہو گا!

اردو لکھے جانے میں اس وقت اگر زندہ ہے تو قسم خدا کی صرف اس وجہ سے کہ نئے موبائلوں اور کمپیوٹر میں اردو لکھنے کی آپشن موجود ہے ورنہ لوگ پہلے بھی آرام سے اے بی سی میں اردو لکھتے تھے آج بھی لکھتے رہتے۔

اردو زندہ ہوئی ہے صرف انٹرنیٹ کی وجہ سے(پکسا بے)

بچے اردو اس لیے نہیں پڑھتے کیوں کہ اردو انہیں مشکل لگتی ہے۔ لوگ اردو کتابیں اس لیے نہیں خریدتے کیوں کہ ادیبوں نے خود پڑھنے والوں کو اپنے پاس سے کئی کلومیٹر دور بھگا دیا ہے۔ نوجوانوں کو روائتی شاعر اس لیے نہیں پسند آتے کیوں کہ ان کی زبان اس ڈکشنری سے بالکل الگ ہوتی ہے جو یہ لوگ اپنی بات چیت میں استعمال کرتے ہیں۔

اردو لکھے جانے میں اس وقت اگر زندہ ہے تو قسم خدا کی صرف اس وجہ سے کہ نئے موبائلوں اور کمپیوٹر میں اردو لکھنے کی آپشن موجود ہے ورنہ لوگ پہلے بھی آرام سے اے بی سی میں اردو لکھتے تھے آج بھی لکھتے رہتے اور آہستہ آہستہ کتابیں وغیرہ اپنے لکھنے والوں کو پیاری ہو جاتیں۔

ہمیں دسویں کلاس میں غالب، امیر مینائی اور پتہ نہیں کون کون سے شاعر پڑھائے جاتے تھے، کیا ذوق ڈویلپ ہوا؟ جب گوروں نے سلیبس بنایا تھا اس وقت لوگوں کی اردو کچھ اور طرح کی تھی، اب جو زبان ہے وہ بس اتنے الفاظ کی ہے جو آپ ہم بولتے ہیں۔

اب اگر بچہ پڑھے گا نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، تو اسے کیا ضرورت ہے بھائی کہ اس کا ترجمہ کرے، اسے سمجھے اور اس پہ ویسے سر دھنے جیسے ہمارے دادا یا ان کے دادا دھنتے تھے، کیوں؟ وہ جو کچھ کرے گا صرف نمبروں کے چکر میں کرے گا ورنہ اس کی بلا سے غالب ہوں یا عبدالعزیز خالد، اس کے لیے سب ایک جیسے ہیں۔

ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ بوجھل اردو کی ساری غزلیں ایک دم سلیبس سے نکال کے ناصر کاظمی، جون ایلیا، احمد مشتاق یا عرفان صدیقی کی نسبتاً آسان شاعری کتابوں میں بھر لی جائے؟ بلکہ یقین کریں اگر اردو سے نوجوانوں کو پیار کروانا ہے تو اپنے ظفر اقبال یا ادریس بابر میں کیا برائی ہے؟

آنکھیں کھول کر دیکھیں تو مشاعروں میں علی زریون اور تہذیب حافی چھائے نظر آتے ہیں، جو سکول اور کالج سلیبس میں کلاسیکی شاعری پڑھاتے ہیں ان کے یہاں بھی کانسرٹ کی طرح کے مشاعروں میں یہی دونوں چھائے ہوتے ہیں، جب ایسا ہے تو کیا برائی ہے؟ ان کا سلیکٹڈ کلام شامل کریں کتابوں میں، اس کے بعد دیکھیں اردو کس بچے کو بری لگتی ہے۔

ہائے ہائے، کیا کہہ دیا علی زریون نے، کس نے جینز کری ممنوع، پہنو اچھی لگتی ہو! اس شعر اور اس شاعر پہ الگ سے کالم ہو گا، ابھی واپس آئیں میدان میں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچاس سال ہو گئے آپ کسی بھی اردو والے سے بات کریں گے اسے یہی گلہ ہو گا، عام پڑھنے والا اردو کتابوں سے دور ہوتا جا رہا ہے، لوگ کتابیں نہیں خریدتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگ تین ہزار کا جوتا خرید لیتے ہیں لیکن دو ہزار کی کتاب نہیں خریدتے۔ لیکن آپ نے کیا کیا بھائی لوگوں کو اس ادب سے قریب لانے کے لیے؟ کبھی آپ نے کوشش کی کہ عام آدمی کے لیے کچھ لکھ دیں؟ کبھی وہ زبان استعمال کرنا پسند کی جو باہر گلی کوچوں، سکول کالجوں میں بولی جاتی ہے؟ کبھی وہ انداز اپنایا جو پڑھنے والے کو یقین دلاتا ہو کہ ہاں یہ کتاب اسے ذہن میں رکھ کے لکھی گئی ہے؟ جس سے پوچھو وہ کہے گا میں ادب اپنے لیے تخلیق کرتا ہوں۔

جب آپ لکھتے ہی اپنے لیے ہیں تو کوئی کیوں خرید کے پڑھے گا؟ یہ تو ہو گا!

صرف اس تخلیق کے لفظ کو دیکھ لیں۔ یا تو مذہبی کتابوں کے ترجمے میں اس کا استعمال ہوا ہے یا ادب میں، عام زندگی میں یہ لفظ آج تک آپ نے کتنی بار استعمال کیا ہے؟ یہاں تک کہ خود شاعر ادیب کتنی بار ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ حضور کیا تخلیق ہو رہا ہے آج کل؟ تو بھائی یہ تو کہانی تھی خود تخلیق کی، جو پاپولر ترین ادب فروخت ہو رہا ہے اس میں بھی اگر کرداروں کے نام دیکھ لیں تو وہ تک مصنوعی ہیں۔ پھر کیوں پڑھیں گے لوگ کتابیں؟

قسمت سے کوئی اچھی کتاب بھی آئے گی، کوئی انسائیکلوپیڈیا ہو گا، کوئی تحقیق ہو گی، وہ بھی اسی بوجھ کے نیچے دب جائے گی۔ ٹرینڈ تو جنہوں نے سیٹ کرنا تھا کر دیا۔ جس وقت منشا یاد اور ڈاکٹر انور سجاد علامتی افسانے لکھ رہے تھے عین اس وقت پڑھنے والا پتلی گلی سے بھاگ بھی رہا تھا لیکن یہ کسی کو پتہ نہیں چلا، احمد ندیم قاسمی ہوں یا انتظار صاحب، سب افسانے کے کرافٹ پہ بات کرتے رہے، پڑھنے والے سے فاصلہ سب کا بڑھتا گیا۔

بچپن سے آج تک اردو کے نام پہ ہمیں وہ گاڑھی اور بوجھل زبان پڑھائی جاتی رہی ہے جو سو دو سو سال پہلے بولی جاتی تھی۔ یار جاوید اختر بھی تو اردو لکھتا ہے، گلزار ہے، تارڑ صاحب ہیں، اس اردو میں کیا برائی ہے؟ بات معیار کی نہیں ہے، بات آج کی ہے، بات اردگرد کی ہے، بات وہ ہے جو آپ کی ہو، جو میری ہو، وہ کیا بات ہوئی کہ خس کی ٹٹیوں اور برفاب کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے موبائل پہ ڈھونڈا جائے اور بعد میں بھی اس کی کوئی شکل دماغ میں نہ بنے۔ تو جب پڑھنے پہ شکل تک نہیں بنے گی تو اردو والا کیوں اردو پڑھے گا مہربان قدردان؟

اس نے فرار ہونا ہی ہونا ہے۔ جو ذرا سی انگریزی جانتا ہے ساری دنیا اس کی پہنچ میں ہے، اردو میں تو کوئی ریسرچ تک نہیں ملتی کسی بھی موضوع کے بارے میں۔ مطلب ایم اے ایم فل کے مقالے بھی لکھیں گے تو ایک دوسرے کا ادبی قد ناپیں گے یا وہی ڈیڑھ سو برس پرانے شاعر کا نیا فکری پہلو، کبھی پچھلے دس سال میں آن لائن کیا کیا ہوا اس پہ کوئی تحقیق دیکھی؟ سوال ہی نہیں۔

اردو کے اخبار آج تک کیوں پڑھے جاتے ہیں؟ لوگ انہیں خریدتے بھی ہیں، انٹرنیٹ پہ بھی پڑھتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ کتاب نہیں لیتے اخبار پڑھ لیتے ہیں؟ ایک دن کے لیے اخبار اسی زبان میں چھاپ دیں جو ادبی کتابوں کی ہوتی ہے، اس کے بعد دیکھیں سیٹھوں کا دیوالیہ نکلتا ہوا۔

اردو زندہ ہوئی ہے صرف انٹرنیٹ کی وجہ سے۔ ابھی چیک کر لیں، پاکستان کی ٹاپ ٹین ویب سائٹس میں پہلے پانچ کے اندر ہوگی اردو پوائنٹ ڈاٹ کام، کیوں؟ اردو تو مر رہی تھی، لوگ کتاب نہیں خریدتے تھے، نئی نسل اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی تو وہ کیا ہے؟ وہ وہ ہے جس سے ہمارے بڑے منہ موڑے کھڑے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی جونیر ادیب شاعر بھی ناراض ہیں۔

وہ خیال کے نئے پن اور الفاظ کا ادبی انتخاب کرنے پہ اتنا زور دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کا دم نکل جاتا ہے۔ وہ چاہ کے بھی واپس نہیں آتا۔ ایسے میں انٹرنیٹ اسے گلے لگاتا ہے۔ ویب سائٹس جو ٹاپ نمبروں پہ ہیں وہ آسان اردو میں، اس کی اپنی اردو میں اسے وہ سب پڑھا دیتی ہیں جو وہ جاننا چاہتا ہے، چاہے خبریں ہوں، کالم ہوں یا کہانیاں۔

بات اگر معیار کی تھی تو وہ زندہ رکھ کے دیکھ لیا، تین سو کی تعداد میں چھپتی ہے نئی کتاب آج کل اردو کی، بات رہ گئی ہے مرشدو سمجھانے کی، پیغام پہنچانے کی، اور اس میں بس یہی ہے جو بتا دیا۔ آج اگر ہمارے بزرگ ہمیں اردو میں لکھ کے واٹس ایپ کر لیتے ہیں، یا فیس بک پہ اردو میں کمنٹ کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ وہ ٹائپ کرنا سیکھ گئے اردو، اس وقت کیوں نہیں سیکھے جب اردو ٹائپ رائٹر آیا تھا؟

سارے سوالوں کے جواب میں نے دینے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ یہ تو اعلیٰ ادب بھی نہیں، نہ کوئی فکری کالم ہے، اب بس سوچنا شروع کریں اور دماغ کی بتیاں جلائیں، فقیر کا چورن ختم ہوا، دکان بڑھانے کا وقت ہے، خدا خوش رکھے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ