تین پلمبر جو لاعلمی کے باعث لاک ڈاؤن میں پھنسے رہ گئے

منیر مسیح اور ان کے دو بیٹے دنیا سے بے خبر ایک نئے تعمیر شدہ مکان کے غسل خانوں میں سینیٹری کا کام کر رہے تھے تاہم انہیں اس وقت دھچکا لگا جب گھر لوٹتے وقت گلی کے نکڑ پر پولیس نے انہیں روک کر کہا کہ اب وہ چودہ دن اس علاقے سے باہر نہیں جا سکتے۔

(تصویر: انیلا خالد)

پشاور کے علاقے سفید ڈھیری (سپینہ وڑئی) میں تین پلمبر ایک مکان میں اس وقت حادثاتی طور پر قرنطینہ کا شکار ہوئے جب اس علاقے میں کرونا وائرس کا ایک کیس پازٹیو آنے کے فورا بعد اس علاقے کو لاک ڈاؤن کر لیا گیا۔

منیر مسیح اور ان کے  دو جوان سال بیٹے دنیا ومافیہا سے بے خبر ایک نئے تعمیر شدہ مکان کے غسل خانوں میں سینیٹری کا کام کر رہے تھے۔ تاہم انہیں اس وقت دھچکا لگا جب  گھر لوٹتے وقت گلی کے نکڑ پر پولیس نے انہیں روک کر کہا کہ اب  وہ چودہ دن اس علاقے سے باہر نہیں جا سکتے۔

منیر مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پولیس اہلکار کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانے۔ لہذا مجبوراً انہیں اسی مکان کی طرف لوٹنا پڑا جہاں پر وہ کام کر رہے تھے۔

’ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہمارا گھر کچھ ہی فاصلے پر ہے لیکن وہ یہ سب سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ میں نے کہا کہ میری والدہ انتہائی بیمار ہیں، بیٹیاں اور بیوی بے آسرا پڑی ہیں لیکن اس بات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ پریشان حالی میں گھر فون کیا کہ ہم اب چودہ دن بعد ہی ملیں گے۔ پنجابی کی ایک مثال ہے کہ چل پیچھے پردیس ہے، وہی بات ہو گئی کہ گھر بھی نزدیک تھا اور جا بھی نہیں سکتے تھے۔ ‘

منیر مسیح اور ان کے بیٹوں نے چودہ دن کیسے گزارے اس کا حال بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں 'پہلے پانچ روز ہمارے پاس جتنا سامان تھا اس سے ہم نے اپنا کام چلایا۔ اور اس کے بعد سر پکڑ کر رہ گئے کہ یہ باقی دن کیسے کٹیں گے۔ ہم سخت پریشان تھے کہ کریں تو کیا کریں۔ جس مکان میں ہم قیام پذیر  تھے اس کا مالک اوپر منزل میں رہ رہا تھا۔ انہوں نے بستر وغیرہ دے دیا تھا۔ کھانا بھی مالک مکان بھجواتے تھے لیکن سوائے کھانے پینے اور انتظار کرنے کے  ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔‘

منیر  اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے 'اس دوران میری فیملی میری والدہ کو وہیل چئیر پر بٹھا کر  ایک خاص فاصلے پر لا کر ہم سے ملنے آئی ۔ دور ہی دور  سے ہم ایک دوسرے کو ہاتھ ہلاتے رہے اور آنسو پونچھتے رہے۔ اسی طرح ہم نے کچھ ملاقاتیں کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مالک مکان بھی مسیحی تھا لہذا اتنی مشکل نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ٹی وی بھی دیکھ لیتے تھے۔لیکن دن کٹ ہی نہیں رہے تھے۔‘

بالآخر کل رات منیر مسیح اور ان کے بیٹوں کو زبردستی کے قرنطینہ سے نجات مل گئی اور وہ گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ قرنطینہ کے دوران انتظامیہ نے علاقہ مکینوں کے ٹسٹ  بھی لیے۔ نتائج منفی آنے کے بعد علاقہ کو کھول دیا گیا۔

واضح رہے کہ سفید ڈھیری کے علاقے میں لاک ڈاؤن اس وقت کیا گیا جب اس علاقے سے کرونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی نشاندہی ہوئی۔ یہ شخص ہنگو کا رہائشی تھا اور اس علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں آیا ہوا تھا۔ اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ وائرس دیگر افراد میں بھی منتقل ہوا ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان