افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے نوجوان رکن کلیم اللہ کون ہیں؟

کلیم اللہ نقیبی نہ تو سفارت کاری کی تعلیم رکھتے ہیں، نہ ہی مذاکرات کے جدید فن سے واقف ہیں۔ لیکن ان کے افغانستان کے مذاکرات کاروں میں شامل ہونے کی کم از کم دو اہم وجوہات ہیں۔

 افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ کلیم اللہ نقیبیکی ایک تصویر (فیس بک) 

تیرہ سال پہلے 2007 میں طالبان کے گڑھ قندہار میں ایک بڑا واقعہ پیش آیا۔ ملا نقیب اللہ، ایک معروف طالبان مخالف کمانڈر اور افغانستان کی اسلامی جمعیت کے رکن تھے، دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی سابق سوویت یونین، مقامی حریفوں اور طالبان سے لڑنے کی ایک لمبی تاریخ تھی اور وہ الکوزی قبیلے کے بڑے رہنما تھے۔ الکوزی افغانستان میں پشتونوں کا ایک بااثر اور طاقتور قبیلہ ہے۔

اس دن اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے اپنی معمول کی سرگرمیاں منسوخ کرتے ہوئے اظہار تعزیت کے لیے قندھار کا سفر کیا۔ سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں انہوں نے ملا نقیب کے 26 سالہ بیٹے کلیم اللہ نقیبی کو ایک چاندی کا تمغہ دیا اور اسے اپنے والد کا جانشین اور الکوزی قبیلے کا سربراہ قرار دیا۔

اگرچہ افغان قبائل میں عام طور پر قبیلے کے اراکین ہوتے ہیں جو اپنا قائد منتخب کرتے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کا بھی ایسے فیصلوں پر کافی اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفت کے باوجود کلیم اللہ نقیبی قبیلے کے سربراہ بن گئے اور اپنے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ڈال دی۔

جمعیت اسلامی نے انہیں اس 21 رکنی وفد میں شامل کیا جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے قائم کی گئی۔ انہوں نے ایک ایسی جماعت سے اپنی وفاداری ثابت کی ہے جس کے اہم ارکان تاجک ہیں اور بار بار اس موقف کی توثیق کی کہ جنگ افغان بحران کا حل نہیں ہے۔

کلیم اللہ نقیبی سن 1980 میں جنوبی صوبہ قندھار کے شہر ارغنداب میں ایک جہادی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے خرقہ شریف اور امام ابو حنیفہ کے دینی سکولوں میں پرائمری تعلیم حاصل کی اور پھر پاکستان اور قندھار کے صوفی ہائی سکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔

مسٹر نقیبی اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور اپنے والد کی وفات سے قبل ٹھیکیدار تھے۔ ملا نقیب اللہ کی موت نے ان کے بڑے بیٹے کی زندگی تبدیل کر دی۔

ملا نقیب جنوبی افغانستان میں جمعیت اسلامی کے رہنما تھے جس نے پہلے سابق سوویت یونین کے خلاف اور پھر طالبان کے خلاف مزاحمت کی۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ملا نقیب حامد کرزئی کے قریبی اتحادی بن گئے اور اپنے لوگوں کو صدر کے دفاع کے لیے متحرک کیا۔

قبائلی رہنماؤں کا ایک کام جرگوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ عوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے کلیم اللہ نے جرگوں کا انتظام سنبھال لیا اور افغانستان کی مرکزی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو منظم کیا اور اس دوران امیر اور بااثر ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان کی جمعیت اسلامی نے صلاح الدین ربانی کو اپنا قائد اور ضیا مسعود کو اپنا نائب اور کلیم اللہ نقیبی کو ان کا نائب رہنما منتخب کیا۔ یہ نوجوان ناتجربہ کار ٹھیکیدار افغانستان کی ایک اہم سیاسی جماعت کی سپریم لیڈر کونسل کا رکن بن گئے ہیں۔

جب 2013 میں قندھار میں سرکاری فوج اور طالبان کے مابین لڑائی بڑھ گئی تو نقیبی نے نور ٹی وی کو بتایا: ’ہمارے لوگ اسے امن کی آواز کہتے ہیں۔ افغانستان کی ترقی کے لیے امن ضروری ہے۔ صرف ایک صوبے کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے۔‘

کلیم اللہ نقیبی نہ تو سفارت کاری کی تعلیم رکھتے ہیں، نہ ہی مذاکرات کے جدید فن سے واقف ہیں۔ لیکن ان کے افغانستان کے مذاکرات کاروں میں شامل ہونے کی کم از کم دو اہم وجوہات ہیں۔

پہلی کہ وہ ایک ایسے ممتاز کمانڈر کے بیٹے ہیں جو حالیہ برسوں میں ہمیشہ قندھار کے معاملات میں پیش پیش رہیں ہیں۔ جمعیت اسلامی کے نائب سربراہ ہیں۔ دوسری طرف کلیم اللہ الکوزی قبیلے سے ہیں جس کا قندہار کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔

کلیم اللہ شاید جرگے کی زبان کو جانتے ہیں۔ جرگہ افغانستان میں بہت سے نسلی گروہوں کے لیے فیصلے کرنے کا ایک اہم ادارہ ہے۔ عدلیہ کے پاس جانے کی بجائے بہت سے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے جرگے کا رخ کرتے ہیں۔ کلیم اللہ نے گذشتہ برسوں میں ہاؤس آف لارڈز میں کافی تجربہ حاصل کیا ہے۔

اگر افغان مذاکرات میں واقعی ماحول جرگے کی طرف بڑھتا ہے تو کلیم اللہ نقیبی کے کردار میں اضافہ ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل