ایران افغان صدر اشرف غنی کا مخالف کیوں؟

ایران نے اپنے سفیر کو نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں نہیں بھیجا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کی متوازی تقریب میں اس کے سفارت کار شریک ہوئے۔

اشرف غنی ایران کے لیے نا قابل قبول ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

افغانستان کے صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد جس میں اشرف غنی کو فاتح قرار دیا گیا تھا، حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے سفارتی طور پر انہیں مبارک باد کے پیغامات ارسال کیے۔ یہاں تک کہ صدارتی افتتاح کے موقع پر، افغانستان میں مقیم تقریباً تمام غیرملکی سفیر موجود تھے، لیکن واحد ملک جس نے آج تک اس پر عمل نہیں کیا وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے گذشتہ اتوار کو ایک بیان جاری کیا جس میں اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت کی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ ایران تشویش کے ساتھ افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے افغان صدارتی انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والے تنازعات کے غیر متوقع نتائج اور اس کے علاقائی اثرات پر بھی تشویش ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے بیان میں ایران نے افغانستان میں صورت حال کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا ہے، خصوصاً اس کی جانب سے 2014 کے انتخابات سے پیدا ہونے والی صورت حال سے کوئی سبق حاصل نہ کرنا اس کی ایک وجہ قرار دیا گیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا: ’نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم میں امریکی صدر کی ضرورتوں کو ترجیح دینے اور خطے کے مفادات اور سلامتی پر توجہ دیے بغیر مذاکرات کو آگے بڑھانے میں امریکی غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے موجودہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔‘

ایران کا کہنا تھا کہ وہ اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے مابین جاری تنازعات کے پھیلنے کے بعد امریکی حکومت کی یکطرفہ پالیسیوں اور افغان عوام کے قومی مفادات کی قربانی دینے کے اقدام کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ ’اسلامی جمہوریہ ایران افغانستان کے سیاسی رہنماؤں اور علاقائی طاقتوں کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے تاکہ تمام سیاسی دھڑوں اور گروپ کی شراکت سے ایک جامع حکومت کی تشکیل دی جاسکے۔‘

بیان میں مزید وضاحت کی گئی کہ 'ایران ماضی کی طرح، افغانستان میں مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی علاقائی کوششوں میں فعال شرکت اور افغانستان اور خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے تیار ہے۔‘

اس قسم کی زبان کے استعمال سے یہ بات واضح ہے کہ ایرانی حکومت کو مائنس ڈاکٹر عبد اللہ فارمولہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے لیے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی فتح پہلی اور قومی اتحاد کی حکومت کا تسلسل دوسری ترجیح ہے۔

ایران ڈاکٹر عبداللہ کی حمایت کیوں کرتا ہے؟

بین الاقوامی میڈیا نے ایران کی جانب سے ماضی میں افغان انتخابات میں مداخلت کی رپورٹس دی تھیں۔ میڈیا نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاسداران انقلاب دراصل ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ کی حمایت کرتا ہے اور انہیں الیکشن جتوانے کی کوشش کر رہا تھا۔

یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ڈاکٹر عبداللہ کو فون کیا اور انہیں پاسداران انقلاب کی حمایت سے دور رہنے کا کہا۔ اس کے علاوہ دو ایرانی سفارت کاروں کی افغانستان سے بے دخلی کو بھی ایران کی افغان انتخابی امور میں مداخلت تصور کیا جا رہا تھا۔

ان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ ایرانی سفارت کار، جنہیں گذشتہ سال افغان حکومت نے جبری طور پر افغانستان سے بے دخل کیا تھا، وہ ایک انتخابی ٹیم کی مدد کر رہے تھے اور انتخابات میں مبینہ طور پر مداخلت کر رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اطلاعات ہیں کہ یہ دونوں سفارت کار اب واپس افغانستان آ چکے ہیں۔

اس صورت حال نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تناؤ بھی پیدا کر دیا ہے اور اگرچہ وزارت خارجہ نے اس کی منظوری نہیں دی ہے، لیکن ایران نے مبینہ طور پر دو افغان سفارت کاروں کو جوابی کارروائی کے طور پر برطرف کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایران کو افغانستان میں طاقتور اداروں پر اپنا اثر و رسوخ رکھنے کے لیے مضبوط اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ ماضی میں یہ جہادی رہنماؤں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کر کے کیا گیا تھا اور زیادہ تر جہادی رہنماؤں کا ایران کے ساتھ مضبوط رشتہ تھا، لیکن یہ جہادی رہنما اب یا تو اقتدار سے باہر ہیں یا دم توڑ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ایران اتحادیوں کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ اشرف غنی کی ایوان اقتدار میں موجودگی ایران کے لیے بظاہر ناقابل قبول ہے۔ ایران جانتا ہے کہ معاشی منصوبوں اور بہتر حکمت عملی سے وہ افغانستان میں اپنے مفادات کا دفاع کرسکتا ہے۔

مثال کے طور پر پانی کی ترسیل اور انتظام کے شعبے میں، ایران کے مشرقی حصوں کا زیادہ تر انحصار اس پانی پر ہے جو افغانستان سے آتا ہے۔ ان پانیوں کے انتظام، خاص طور پر ڈیموں کی تعمیر، ایران کے آبی وسائل کے لامحدود استعمال کو بہت حد تک کم کرسکتی ہے، اسی وجہ سے ایران ڈیم بنانے کا مخالف ہے۔

ایک اور وجہ اشرف غنی کا افغانستان میں حقیقی استحکام قائم ہونے تک نیٹو افواج کی موجودگی پر زور دینا ہے۔ ایران کا خیال ہے کہ نیٹو کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی طالبان ایک بار پھر افغانستان کو قابو میں لاسکتے ہیں اور اپنی علاقائی پالیسیاں نافذ کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے افغانستان میں نیٹو مشن کو جاری رکھنے کی کسی بھی کوشش کو ایران شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ایران نے اپنے سفیر کو نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں نہیں بھیجا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کی متوازی تقریب میں اس کے سفارت کار شریک ہوئے۔

ایسا لگتا ہے کہ ایران نے ڈاکٹر عبد اللہ کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کوششوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا