قیدیوں کی رہائی امریکہ نہیں افغان حکومت کا اختیار ہے: اشرف غنی

افغان صدر کے مطابق امن معاہدے کے تحت 5000 قیدیوں کو رہا کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ افغان عوام کی مرضی اور ان کی رائے سے کیا جائے گا۔

صدر اشرف غنی کی جانب سے قیدیوں کی رہائی پر سوال افغانستان کے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کی سختی کی جانب اشارہ ہے جس کے لیے قائدین اہم مسائل پر ایک صفحے پر دکھائی نہیں دیتے۔(اے ایف پی)

افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ سات روزہ جزوی جنگ بندی جاری رہے گی لیکن انہوں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے ایک اہم حصے کو مسترد کر دیا ہے جس کے مطابق افغانستان میں قید ہزاروں جنگجوؤں کی رہائی پر زور دیا گیا ہے۔

’تشدد میں کمی کی مدت ہفتے کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدے سے قبل ایک ہفتے سے جاری ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق معاہدے کے تحت تمام غیرملکی فوجیں 14 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنے  وعدوں کی پاسداری کریں اور مزید جامع امن معاہدے کے لیے کابل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔

افغان صدر اشرف غنی نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’تشدد میں کمی کا سلسلہ جاری رہنا چاہئیے تاکہ مکمل جنگ بندی کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔‘

انہوں نے افغانستان میں غیرملکی افواج کے کمانڈر انچارج کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: ’جنرل سکاٹ ملر نے طالبان کو ایسا کرنے کے لیے کہا ہے، توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘

لیکن آگے کی ناہموار سڑک کا اشارہ دیتے ہوئے صدر اشرف غنی امریکہ طالبان معاہدے کی ایک شق سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جس میں طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہزار تک جب کہ افغان حکومت پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دے گی۔

افغان صدر کے مطابق امن معاہدے کے تحت 5000 قیدیوں کو رہا کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ افغان عوام کی مرضی اور ان کی رائے سے کیا جائے گا۔ اسے افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات چیت شروع کرنے کے لیے پیشگی شرط نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’کسی بھی قیدی کی رہائی امریکہ نہیں افغان حکومت کا اختیار ہے۔‘
اب تک طالبان صرر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں جنہیں وہ امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ خیال کرتے ہیں لیکن افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلا کے معاہدے کا انحصار کابل اور جنگجوؤں پر ہے کہ وہ افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے الگ سے ایک معاہدہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر اشرف غنی کی جانب سے قیدیوں کی رہائی پر سوال افغانستان کے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کی سختی کی جانب اشارہ ہے جس کے لیے قائدین اہم مسائل پر ایک صفحے پر دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ نے صدر اشرف غنی کی کامیابی کو ابھی تک واضح طور تسلیم نہیں کیا اور کئی مہینے کی تاخیر کے بعد گذشتہ ہفتے اعلان کیا گیا۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ہفتے کو کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی فوری طور پر شروع ہو جائے گی۔

صحافیوں کے اس سوال پر کہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کب شروع ہو گی؟ امریکی صدر نے جواب دیا کہ فوج کی واپسی فوری شروع ہو گی۔

اس وقت 12 سے 13 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ معاہدے کے تحت 135 دن میں ان کی تعداد کم کر کے آٹھ ہزار چھ سو فوجیوں تک لائی جائے گی۔

یاد رہے کہ آج ایران نے بھی امریکہ طالبان معاہدے کی مخالفت کردی ہے۔ صدر اشرف غنی جیسے موقف کے حامل ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکیوں کو افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے نیز امریکہ کو طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے یا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی قانونی حق بھی نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا