افغان طالبان کے پہلے ہزارہ گورنر کی تقرری اب کیوں؟

ایک ایسی تنظیم کی جانب سے اس تقرری پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے جس نے نوے کی دہائی کے وسط میں اقتدار میں آنے کے بعد مبینہ طور پر نسل کشی کی۔

حالیہ وقتوں میں افغان طالبان نے ازبک اور تاجک نوجوانوں کو بھی بھرتی کیا ہے تاکہ اپنے آپ کو قومی رنگ دے سکیں(تصویر: انڈپینڈنٹ فارسی)

افغان طالبان نے گذشتہ ہفتے اس تحریک کے واحد ہزارہ کمانڈر مولوی مہدی مجاہد کے ساتھ 22 منٹ طویل انٹرویو جاری کیا جس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ انہیں طالبان نے سرپل صوبے کے بلخاب شہر کا گورنر مقرر کیا ہے۔ 

پہلی مرتبہ افغان عوام نے دیکھا کہ ایک ہزارہ شیعہ افغان طالبان کے سفید پرچم تلے ہتھیار اٹھاتا ہے اور کابل کی حکومت اور امریکہ سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اگرچہ طالبان تحریک میں اکثریت پشتونوں کی ہے تاہم تاجک اور ازبک ممبران بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں بہت سے لوگ مہدی مجاہد کی تقریر سے حیران ہوئے لیکن وہ صوبہ سرپل کے لوگوں کے لیے انجان نہیں ہیں۔

اس ویڈیو انٹرویو میں مولوی مہدی نے طالبان کے سیاہ رنگ کی پگڑی پہن رکھی ہے اور طالبان کے انداز میں داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے فوجی جیکٹ پہنی ہوئی ہے اور ان کی ایک جانب کلاشنکوف رکھی ہے اور دیوار پر طالبان کا سفید پرچم لگا ہے۔ 

مہدی مجاہد ان چند افغان ہزارہ شہریوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے۔ دیگر طالبان کے برعکس انہوں نے کسی دیوبندی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے اور نا وہ روس کے خلاف لڑے ہیں۔ مجاہد شمالی افغانستان کے صوبہ سرپل کے شہر بلخاب کے ایک غریب گاؤں ہوش سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی غربت میں گزاری۔ بےروزگاری سے تنگ، وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث رہے یہاں تک کہ انہیں 10 سال قبل ایک مقامی امیر شخص جمعہ اکبری کے بیٹے کمال الدین کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ ایک افغان عدالت نے مہدی مجاہد کو 14 سال قید کی سزا سنائی لیکن انہیں معافی دی گئی اور سات سال بعد رہا کر دیا گیا۔ 

جیل سے رہائی کے بعد مجاہد نے بدلہ لینے کا ارادہ کیا لیکن بلخاب میں افغانستان کی اسلامی پارٹی کے رہنما محمد محقق کی ثالثی کی وجہ سے مہدی مجاہد متعدد مقامی عمائدین کے ساتھ کابل آئے اور مزید لڑائی سے بچنے کی خاطر انہوں ایک روایتی کونسل میں صلح کر لی۔ 

مہدی بلخاب میں واپس آئے، لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔ اس بار انہوں نے پولیس کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ رہائی کے چند سال بعد انہوں نے کابل کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھایا اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے ملک کی سب سے بڑی کوئلے کی کانوں میں سے ایک پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران ان  کی دیگر مقامی بندوق برداروں سے کئی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس دور دراز کے علاقے میں افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں اسلحہ بھی استعمال کیا گیا۔ 

لیکن انہوں نے صوبہ سرپل میں طالبان کے لوگوں سے بھی رابطہ کیا اور ان سے اسلحہ اور گولہ بارود لے کر مزید شدت پسندوں کو بھرتی کیا۔

سرپل کے گورنر کے ترجمان ذبیح اللہ امانی نے روزنامہ ’اطلاعات امروز‘ کو بتایا کہ مہدی مجاہد اور حکومت کے مابین جھڑپوں میں بلخاب کے سکیورٹی ڈائریکٹر سمیت سیکیورٹی فورسز کے چھ ارکان ہلاک اور چھ سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ جھڑپوں میں مہدی مجاہد کے آٹھ افراد بھی مارے گئے تھے۔ 

لیکن اس کے بعد مہدی مجاہد طالبان کے محاذ پر نہیں رہے۔ 

انہوں نے اپنے جرائم، سزاؤں اور قید کے ریکارڈ کا ذکر کیے بغیر ایک طالبان رپورٹر کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں کہا:  ’اسلامی امارت میں شامل ہونے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ امریکہ کی مخالفت اور افغانستان پر ان کے حملے کی وجہ سے ہی ہم اپنی آزادی کے دفاع کے لیے مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے۔‘ 

ویڈیو کی ریلیز سے قبل طالبان نے مہدی مجاہد کی باتوں کو سختی سے ایڈٹ کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ گفتگو صوبہ سرپل میں ہوئی ہے، جہاں مولوی مہدی مجاہد ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔

یہ انٹرویو سٹریٹجک مقاصد کے لیے ہے۔ طالبان پر ہمیشہ سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے شیعوں کے مخالف رہیں ہیں۔ افغانستان کی  ہزارہ برادری میں مقبول وحدت پارٹی کے رہنما عبدالعلی مزاری، جنہیں شہید قرار دیا جاتا ہے، کو طالبان نے قتل کیا تھا۔ اس واقعے کو برسوں گزر گئے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کے اہل تشیع نے اب تک طالبان کو معاف نہیں کیا۔ ان برسوں کے دوران شہروں اور مساجد میں ہلاک ہونے والے متعدد شہری ہزارہ تھے۔ افغانستان کے ہزارہ برادری کے نظریات طالبان سے بالکل مختلف ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہزارہ قوم سے متعلق اپنے تازہ بیان میں ملا فضل مضلوم، جو ایک طاقتور طالبان رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ قطر میں ان کے سیاسی دفتر کے رکن ہیں، نے کہا: ’وہ ان نوجوانوں اور علما کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھتے ہیں۔ وہ ایک طالبان کے قتل پر خوش ہوتے ہیں اور وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک کافر کو مار ڈالا۔ حقائق دیکھیں۔ ان کی وجہ سے ہم نے اپنی اسلامی حکومت کو کھویا۔ ہمارے ساتھیوں سے جیلیں بھر گئیں۔ وہ ہمیں کافر اور مشرک کہتے ہیں۔‘ 

ملا فاضل کے تبصرے پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ اسی بنیاد پر کئی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کے ساتھ طالبان کی دشمنی ابھی قائم ہے۔  

ملا مہدی سے طالبان رپورٹر کا ایک سوال افغانستان میں شیعوں کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں تھا۔

 انہوں نے کہا: ’امارت اسلامیہ سے پہلے ہمارے فیصلے ہوتے تھے۔ ہمیں واقعتاً یہ احساس اور حوصلہ ملا کہ امارت اسلامیہ کوئی نجی امارات نہیں ہے۔ ہم اسی قوم کا حصہ ہیں۔ ہم امارت اسلامیہ کے بچے بھی ہیں۔ ہمارا یہ تاثر تھا کہ امارت اسلامیہ ان کی مقدس بغاوت کی وجہ سے قبائل کے خلاف ایک مؤقف اختیار کرے گی۔ ہم امارت اسلامیہ کو کثیرالجہتی اور غیرنسلی سمجھتے ہیں۔ امارت اسلامیہ امید کی کرن ہے۔ میں شیعہ عوام کے بارے میں امارت اسلامیہ کے موقف کو بہت اچھے انداز میں سمجھ گیا ہوں۔‘

لیکن ان کی ایک ایسی تنظیم کی جانب سے اس تقرری پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے جس نے نوے کی دہائی کے وسط میں اقتدار میں آنے کے بعد مبینہ طور پر نسل کشی کی۔

خیال ہے کہ طالبان افغانوں کے درمیان مذاکرات کے آغاز سے قبل ہزارہ برادری سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسی تنظیم کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو تمام افغانستان کی نمائندگی کرتی ہے۔

لیکن ٹوئٹر پر ایک صارف فاطمہ اوستاوی نے طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے انٹرویو کے اجرا کے جواب میں لکھا، ’آپ کو ہزارہ لوگوں کا قتل اور مذہب کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنا یاد ہے۔۔۔ اگر آپ واقعتاً خدا کو جانتے ہیں تو آپ کسی بےگناہ مسلمان کو قتل نہ کرتے۔  آپ میں انسانیت مر چکی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا